Aug ۱۰, ۲۰۱۸ ۱۲:۰۷ Asia/Tehran
  • صاحب، چشمہ اتار لو، یہ ایران ہے!!!! + مقالہ

شمالی کوریا کے وزیر خارجہ نے ایسی حالت میں ایران کا سفر کیا ہے کہ جب امریکا کے صدر دونوں کی ممالک پر شدید پابندیاں عائد کرنے کی کوشش تیز کر رہے ہیں۔

امریکی میڈیا نے اس دورے کو خاص اہمیت دی ہے اور امریکا کے بڑے میڈیا اداروں نے اس دورے کے مضمرات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

نیوز ویک نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری ہونگ یو ایسے حالت میں بدھ کے روز تہران پہنچے کہ دونوں کی ممالک کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ اقتصادی پابندیوں کو شدید کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان حالات میں دونوں کی ممالک کے حکام کی یہ کوشش ہوگی کہ کس طرح امریکی پابندیوں کو ناکام کر دیا جائے۔

شمالی کویا اور امریکا کے درمیان سنگاپور میں سربراہی اجلاس ہوا تھا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے اپنی حکومت کے لئے بڑی کامیابی قرار دیا تھا اور یہ ییغام دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ بہت بڑی جنگ فتح کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ بات ابتدا سے ہی واضح تھی کہ شمالی کوریا کو امریکا پر کوئی بھروسہ نہیں ہے جبکہ امریکیوں کی یہ کوشش تھی کہ شمالی کوریا کی حکومت امریکی وعدوں پر اعتماد کرکے عملی اقدامات کرے اور اپنا ایٹمی اور میزائل پروگرام پوری طرح تباہ کر دے۔

یہی سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ شمالی کوریا نے امریکی وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا اور امریکیوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ویسے وہ پہلے سے ہی وعدہ پورا نہ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے امریکا کی مذمت کی کہ اس نے وعدے کے مطابق پابندیاں ختم نہیں کیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شمالی کوریا نے ایٹمی اسلحے تباہ کرنے کا عمل شروع نہیں کیا ہے جبکہ دوسری جانب سے میزائل پروگرامز کو مزید توسیع دے رہا ہے۔ اس کے کچھ ہی دن بعد امریکا نے روسی بینک کو شمالی کوریا میں تعاون کے سبب بلیک لسٹ کر دیا۔ شمالی کوریا کی دو کمپنیوں اور ایک شہری کو ان کی اقتصادی اور مالی سرگرمیوں کی وجہ سے پابندیوں کے دائرے میں لایا گیا۔

امریکی انتظامیہ نے منگل کے روز سے ایرانی پر بھی وہ پابندیاں عائد کر دیں جو ایٹمی سمجھوتے کے بعد ہٹا لی گئی تھیں۔ ایران کے حوالے سے ٹرمپ کی فکر یہ تھی پابندیاں سخت کرکے وہ اس ملک کے اندر نا امنی پیدا کر دیں اور پھر آخر میں اسے واشنگٹن کے مطالبات قبول کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ ٹرمپ حکومت کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے چشمے سے پوری دنیا کو دیکھتی ہے لیکن وہ یہ حقیقت بھول جاتی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک اور طاقتیں اپنے الگ منصوبے اور الگ موقف رکھتی ہیں۔

اس وقت عالمی سطح پر جو تبدیلی رونما ہے ٹرمپ حکومت اس کے عمق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ امریکی حکومت یہ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ دنیا کے الگ الگ حصوں میں نئی طاقتیں ابھر چکی ہیں جو علاقائی سطح بھی بھی نہيں بلکہ عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران بھی ایسی ہی طاقتوں میں سے ایک ہے۔

ایران کا مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک نے اسلامی انقلاب کے بعد 40 برسوں میں امریکا ہی نہیں بلکہ دیگر مغربی طاقتوں کی پابندیوں کا سامنا کیا ہے اور اسے اچھی طرح سے پتا ہے کہ پابندیوں سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔

ایران نے علاقائی سطح پر اپنی ساکھ مضبوط کی ہے اور ہمسایہ ممالک کی نظر میں ایران ایک قابل اعتماد ملک بن چکا ہے۔ بحران شام کا جو انجام ہوا ہے یا عراق میں داعش کی جس طرح سے کمر توڑ دی کئی ہے اس کے مد نظر ایران کی طاقت اور اثر و رسوخ کی گہرائی کو سمجھا جا سکتا ہے۔

موجودہ حالات میں شمالی کوریا ہی نہیں بلکہ زیادہ تر ممالک ایران سے اپنا تعاون بڑھا رہے ہیں۔ اس وقت وہ ممالک بھی ایران کی حمایت کر رہے ہیں جو عام طور پر ایران کے مسئلے میں امریکا کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے تھے۔

امریکا کی حالت یہ ہے کہ اس نے اپنے اتحادیوں کی نظر میں بھی خود کو ناقابل تحمل بنا لیا ہے اور یہ اتحادی امریکا کے مقابلے میں آزاد اسٹراٹیجی تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔

ان حالات کے مد نظر بہت آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا نے پابندیوں کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟

ٹیگس