Nov ۰۸, ۲۰۱۸ ۰۸:۴۱ Asia/Tehran
  • کیا امریکی پابندیاں کامیاب ہوں گی؟ عطوان کا بے باک مقالہ

جب اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے نفاذ کو تاریخی دن قرار دیتے ہیں تو جتنے بھی شریف عرب اور مسلم شہری ہیں ان کے لئے واجب ہے کہ ان پابندیوں کی بے دریغ مخالف کریں ۔

یہ پابندی ایران پر صرف اس لئے عائد کی گئ ہیں کہ بیت المقدس میں اسلامی اور عربی مذہبی مقامات پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جد جہد کرنے والے محاذ کا حصہ ہے۔ اگر یہی ایرانی حکومت نتن یاہو اور ان کے وزیر جنگ اویگدور لیبرمین کے لئے ریڈ کارپیٹ پچھاتی اور اسرائیلی جوڈو ٹیم اور دیگر کھلاڑیوں کے لئے اپنے ملک کے دروازے کھول دیتی اور اپنی سرزمین پر اسرائیل کا ترانہ بجانے کی اجازت دیتی تو امریکا کی یہودی لابی ایران کی دوست بن جاتی اور امریکی وزارت خزانہ بھی ایران کے لئے اپنے دروازے کھول دیتا ۔

صدر دونلڈ ٹرمپ نے ایرانی عوام پر سخت پابندیاں عائد کرکے در حقیقیت اسرائیلی ایجنڈے کا کام کیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ان کے سابھ  ریپبلکن صدر جارج بش نے عراق کے ساتھ کیا تھا تاہم ایران پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان کی کامیابی کا امکان ایک فیصد بھی نہیں ہے ۔ 8 ممالک کو ان پابندیوں کے مسئلے سے الگ کرنا، پابندیوں کی ناکامی کا پہلا ثبوت ہے۔ ان ممالک نے کہہ دیا تھا کہ وہ امریکی پابندیوں پر عمل نہیں کریں گے اور ایران سے مسلسل تیل کی خریداری جاری رکھیں گے۔ یہ ممالک ایران پر پہلے مرحلے کی پابندیاں عائد ہونے کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کرتے رہے ہیں ۔

ہم ایران سے یہی آرزو کرتے ہیں کہ وہاں کی حکومت اور عوام دونوں امریکا اور اسرائیل کے سامنے ہزگز پسپائی اختیار نہ کرے۔ اس ناکہ بندی کا ڈٹ کر مقابلہ کرے، عراق اور لیبیا کے تجربات کو نظر کے سامنے رکھے۔ کیونکہ اگر پسپائی اختیار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر وہ بھی نہیں روکتا، آخری مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اس ملک پر حملہ کرکے اسے قبضے میں لے لیا جاتا ہے ۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ ایرانی قیادت جس نے ایٹمی مذاکرات کے دوران دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کو مذاکرات کی ميز پر اپنی ذہانت کا مشاہدہ کرایا، اس حقیقت کو اچھی طرح جانتی ہے ۔

ٹرمپ ایران سے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ طاقتور ملک ہے، اس کے پاس میزائلوں اور دفاعی ساز و سامان کا ذخیرہ ہے جس سے وہ امریکا کے اتحادیوں کو مٹی میں ملا سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکی حکومت ایران پر حملہ کرنے کے بجائے پابندیاں عائد کر رہی ہے تاکہ ایران کے عوام اپنے حکمراں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں اور اسلامی جمہوریہ نظام سرنگوں ہو جائے تاہم امریکی صدر یہ بھول جاتے ہیں کہ ایرانی قوم گزشتہ 40 برس سے پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے اور اس نے کبھی بھی سر تسلیم خم نہیں کیا اور ہمیں کسی بھی طرح کا کوئی شک نہیں ہے کہ یہ قوم اس بار بھی سر تسلیم خم نہیں کرے گی ۔

ہم اعداد و شمار نہیں حکمت اور منطق کی بنیاد پر گفتگو کرتے ہیں کہ جب دہشت گرد گروہ داعش کو اپنے زیر کنٹرل علاقوں کے تیل کے لئے خریدار مل گئے تو کیا ایران جیسا ملک اپنے تیل کے فروخت میں ناکام ہو جائے گا؟ ویسے ہم اس مقایسے پر معذرت خواہی کرتے ہیں کیونکہ دونوں میں کسی بھی طرح کی مماثلت نہیں ہے ۔ اسی طرح جب شمالی کوریا ناکہ بندی کے باوجود ایٹم بم اور امریکی سرزمین تک پہنچنے والے بیلسٹک میزائل کو پیشرفت کرنے میں کامیاب ہو گیا تو کیا ایران جیسا طاقتور ملک اس محاصرے کا سامنا کرنے بلکہ اس کا جواب دینے میں کامیاب نہیں ہوگا؟

اسرائیلیوں اور امریکیوں اور اسی طرح ان کے نئے اور قدیمی اتحادیوں کو سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ وہ مزاحمتی محاذ مضبوط ہو چکے ہیں جن کی مدد ایران نے کی ہے اور یہ تنظیمیں ایک خاص دن کے انتظار میں ہیں ۔ ہم یہاں حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی جیسی تنظیموں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ ان تنظیموں نے اسرائیل کو شمال اور جنوب سے اپنے محاصرے میں کر رکھا ہے۔ یہ تنظیموں خاص طور پر حزب اللہ کے میزائل اسرائیل ہی نہیں امریکا کو بھی ایران پر ایک گولی فائر کرنے سے پہلے سو بار فکر کرنے پر مجبور کر دیں گی ۔

ایران ایک جزیرہ نما ملک ہے وہ امریکا کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کے وار کو برداشت کر لے کا لیکن اگر کبھی انتقامی کاروائی کے تحت شام، حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی نے اسرائیل پر وار کر دیا تو کیا اسرائیل اسے برداشت کر پائے گا؟ کیا اسرائیل تب سانس بھی لے پائے گا جب ہر طرف سے اس پر میزائلوں کی بارش ہوگی؟ امریکی فضائیہ سسٹم کا اسٹار کہے جانے والے پیٹریاٹ میزائیل یمن کے الحوثیوں کے بیلیسٹک میزائلوں کو نہیں روک پائے تو کیا حزب اللہ کے پیشرفتہ میزائلوں کو جو درجنوں نہیں سیکڑوں کے تعداد میں اسرائیل پر گریں گے، اسرائیلی فضائیہ سسٹم انہیں روک پائے گا؟

ہم ایک بار پھر پوری وضاحت سے کہتے ہیں کہ جب نتن یاہو ایران پر پابندیاں عائد کئے جانے کو تاریخی دن کہتے ہیں تو ہمارے لئے اب آپشن کا انتخاب آسان ہو گیا ہے اور ہمارا متبادل یہی ہوگا کہ ہم بغیر دریغ کے نتن یاہو کے مخالف محاذ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، زندگی تو وہی ہے جو عزت کے ساتھ گزاری جائے ۔

بشکریہ

عبد الباری عطوان

عالم اسلام کے مشہور عرب تجزیہ نگار

رای الیوم

ٹیگس