May ۱۹, ۲۰۱۹ ۰۴:۳۹ Asia/Tehran
  • جنگ سے پہلے ہی ایران سے بازی ہار گئے ٹرمپ ... مقالہ (پہلا حصہ)

اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکا کے درمیان تصادم اور کشیدگی کا ماحول ہے تو تیزی سے رونما ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں پر نظر رکھ پانا مشکل ہو رہا ہے ۔

امریکا نے ابراہم لنکن کیرئر بھیجا تو متحدہ عرب امارات کی الفجیرہ بندرگاہ پر کھڑے سوپر تیل ٹینکروں پر حملہ ہو گیا ۔ اس کے بعد سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض سے کچھ ہی فاصلے پر سعودی عرب کی دو تیل تنصیبات پر ڈرون طیاروں کا حملہ ہو گیا اور اب عراق کا محاذ بھی گرم ہو گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپئو جو ایران کے خلاف جنگ کا ڈھول پیٹنے میں آگے آگے رہتے ہیں، عراق کے دار الحکومت بغداد پہنچے اور اپنے ساتھ کچھ سی ڈی بھی لے گئے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ عراقی رضاکار فورسز حشد الشعبی نے شام سے ملنے والی سرحد کے نزدیک امریکی فوجی ٹھکانوں سے کچھ ہی دور پر میزائل نیٹ ورک قائم کر لیا ہے جس سے وہ امریکی فوجیوں پر حملہ کر سکتے ہیں ۔

ہمیں تو یہ خدشہ تھا کہ آبنائے ہرمز میں کوئی تصادم ہوگا لیکن اچانک پومپئو آکر عراق کے وزیر اعظم عادل عبد المہدی نیز میڈیا کو بتاتے ہیں کہ امریکی مفاد اور فوجیوں کے خلاف شدید خطرہ عراق کے اندر موجود ہے ۔ اس میں دو طرح کے پیغام ہیں ۔ ایک پیغام یہ ہے کہ اگر امریکی فوجیوں پر حملہ ہوا تو امریکا، عراقی حکموت سے رابطہ کے بغیر فوری جوابی کاروائی کرے گا اور دوسرا پیغام یہ تھا کہ امریکا، ایران سے مذاکرات چاہتا ہے ۔ 

امریکی انتظامیہ نے عراق سے بغداد میں اپنے سفارتخانے کے زیادہ تر اسٹاف کو واپس بلا لیا اور اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ عراق کا سفر کرنے سے گریز کریں ۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا کو اطلاعات ملی ہیں کہ امریکی مفاد کو ایران سے شدید خطرہ ہے ۔ اس سے پہلے گزشتہ سال ستمبر میں امریکی سفارتخانے کے قریب دھماکہ ہوا اور بصرہ میں امریکی قونصل خانے پر حملہ ہوا تو امریکا نے قونصل خانہ بند کر دیا اور سفارتخانے کا اسٹاف بہت کم کر دیا تھا کیونکہ سیدھی سی بات یہ ہے کہ امریکا ڈر گیا تھا ۔

امریکا نے عراق پر قبضہ کرنے کے لئے 3 لاکھ سے زائد فوجی بھیجے تھے اور 7 ٹریلین ڈالر خرچ کر ڈالے۔ امریکا کے کم از کم 3 ہزار فوجی ہلاک ہوئے ۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی امریکا کے صدر یا وزیر خارجہ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ دن کے اجالے میں اور علی الاعلان عراق کا دورہ کریں ۔ وہ ڈری سہمی بلیوں کی طرح چپکے سے عراق میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں سے جلدی سے نکل جاتے ہیں ۔ یہیں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایران جیسے عظیم ملک پر حملہ کیا تو امریکا کو کیا قیمت چکانی پڑے گی ۔

جاری...

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

ٹیگس