Jul ۱۹, ۲۰۱۹ ۱۴:۴۴ Asia/Tehran
  • خطے کی سلامتی کو باہر سے نہیں خریدا جا سکتا، ایرانی وزیر خارجہ

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات میں علاقے کے حالات اور امریکا کے غیر قانونی اشتعال انگیز اقدامات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے اسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایک بار پھر ایران کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ امن و سلامتی ایسی چیز نہیں ہے جو پیسے دے کے خریدی جا سکے۔

وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جو نیویارک کے دورے پر ہیں، جمعرات کی شام اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوترس کے ساتھ ملاقات کی۔
ایران کے وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے درمیان ملاقات میں امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ میں تعینات ایرانی سفارتکاروں پر پابندیاں عائد کرنے، ایران کے تیل بردار بحری جہاز پر برطانیہ کے ناجائز قبضے، جوہری معاہدے سے متعلق امور نیز خطے میں حالیہ کشیدگی اور خاص طور سے شام، یمن اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
درایں اثنا امریکی جریدے نیشنل انٹرسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے پانچ سو فوجی سعودی عرب بھیجنے کے امریکی فیصلے کے بارے میں کہا کہ مغربی ایشیا کی سلامتی کو باہر سے نہیں خریدا جا سکتا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ  پانچ سو امریکی فوجیوں کی سعودی عرب روانگی کا فیصلہ علامتی اقدام ہے اس سے کسی بھی ملک کی سلامتی میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
 ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے کہا کہ مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی سے خطے کی سلامتی اور استحکام میں کوئی مدد نہیں ملے گی بلکہ خطے کے ملکوں کو باہمی تعاون کے ذریعے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے امریکہ کی جانب سے شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کو اسحلہ کی فراہمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک دہشت گردوں کو ہتھیار فراہم کر کے عوامی مزاحمت پر غلبہ نہیں پا سکتا۔
ایران کے خلاف امریکی دباؤ کے بارے میں وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ٹرمپ کے  بیمار ذہن مشیروں کے مشوروں پر استوار ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی تہران کو واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات میں مجبور نہیں کر سکتی۔
 انہوں نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے یورپ کی عہد شکنی اور وعدہ خلافیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اگر یورپ اپنا فائدہ چاہتا ہے تو دوسرا راستہ اپنا چاہیے۔