Apr ۰۴, ۲۰۱۶ ۱۸:۱۷ Asia/Tehran
  • یمن کی کٹھ پتلی حکومت میں اختلافات

استعفی دیکر سعودی عرب بھاگ جانے والے یمن کے سابق صدر منصور ہادی نے اپنی مفرور کابینہ کے وزیر اعظم خالد بحاح کو برطرف کر کے احمد عبید بن دغر کو ان کی جگہ مقرر کر دیا۔ منصور ہادی نے خالد بحاح کی کابینہ کے وزیر دفاع بریگیڈیئر علی محسن الاحمر کو اپنا معاون مقرر کیا ہے۔

خالد بحاح نے تیرہ اکتوبر دو ہزار چودہ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا لیکن دارالحکومت صنعا پر عوامی انقلابی تحریک انصار اللہ کے قبضے کے بعد سات نومبر کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

استعفی دیکر سعودی عرب بھاگ جانے والے یمن کے سابق صدر منصور ہادی نے بارہ اپریل دو ہزار پندرہ کو ایک بار پھر خالد بحاح کو ریاض میں قائم یمن کی کٹھ پتلی حکومت کا وزیر اعظم مقرر کیا تاہم ان کے درمیان شدید اختلافات کی خبریں تواتر کے ساتھ میڈیا میں آتی رہی ہیں۔

دوسری جانب سعودی عرب نے مالی بحران کی وجہ سے یمن کی جلاوطن حکومت کے وزرائے پیٹرولیم، توانائی اور منصوبہ بندی اور صوبہ مآرب کے گورنر سمیت یمن کی کٹھ پتلی کابینہ کے کئی وزیروں کو ملک سے نکال دیا ہے۔

آل سعود حکومت نے اس سے قبل یمن کی کٹھ پتلی حکومت کے صدر منصور ہادی سے کہا تھا کہ ہوٹلوں میں دیگر قیام گاہوں میں مقیم ان کے ساتھیوں اور عہدیداروں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی لہذا انہیں سعودی عرب سے کہیں اور چلے جانا چاہئے۔

دوسری جانب اخبار رائے الیوم کے چیف سینیئر ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے بھی کہا ہے کہ سعودی عرب جانے والے یمن کے بہت سے مفرور حکام اور زرخرید ایجنٹ سعودیوں کے برے سلوک سے تنگ آچکے ہیں اور وہ دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ادھر یمن کی نیشنل کانگریس نے ملک کے سیاسی اور زمینی حقائق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت کو یمن میں شکست کا سامنا ہے اور اس کی ناکامی واضح ہو چکی ہے۔

نیشنل کانگریس انفارمیشن سینٹر کے سربراہ احمد الجیشی نے کہا کہ سعودی عرب کے نائب ولی عہد نے جنگ یمن کے عنقریب خاتمے کی جو بات کہی ہے وہ دراصل سعودی عرب کی شکست کی جانب اشارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصور ہادی کے فیصلے، معزولیاں اور تقرریاں سب غیر قانونی ہیں۔

انصار اللہ کے میڈیا سیل کے سربراہ عبدالرحمن ہنومی نے بھی کہا ہے کہ کٹھ پتلی حکومت کے صدر منصور ہادی نے جو تبدیلیاں کی ہیں ان سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اختلافات کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، منصور ہادی کے نئے معاون بریگیڈیئر محسن الاحمر کے ذریعے تکفیری گروہوں کو متحد کرنا چاہتا ہے کیوں کہ اس شخص کے، اصلاح گروہ اور القاعدہ کے ساتھ قریبی رابطے ہیں۔

درایں اثنا یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصار اللہ نے سعودی حکومت کے ساتھ کسی بھی سطح کے مذاکرات کو جنگ بندی پر عمل درآمد سے مشروط کر دیا۔

انصار اللہ کی انقلابی کونسل کے سربراہ محمد علی الحوثی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عملی جنگ بندی اور محاصرے کا خاتمہ سعودی عرب کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کی اولین شرط ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کی پاسداری ہی کویت میں ہونے والے مجوزہ امن مذاکرات کے مستقبل کا تعین کرے گی۔

قابل ذکر ہے کہ یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسما‏عیل ولدالشیخ احمد نے یمن میں دس اپریل سے جنگ بندی اور اٹھارہ اپریل سے کویت میں امن مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔

ٹیگس