Feb ۲۸, ۲۰۱۸ ۲۱:۲۱ Asia/Tehran
  • مشرقی غوطہ میں جنگ کے اسباب؟ - مقالہ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے بارے میں قرارداد منظور ہونے کے بعد مشرقی غوطہ کے علاقے میں جنگ میں کچھ تو کمی آئی ہے لیکن جنگ بدستور جاری ہے۔

شامی فوج نے دارالحکومت دمشق کے قریب واقع مشرقی غوطہ کے ان سبھی علاقوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا دیا ہے جہاں سے دار الحکومت دمشق کے کچھ علاقوں پر مارٹر گولے فائر کئے جاتے ہیں اور عام شہری نشانہ بنتے ہیں۔

سیکورٹی کونسل کی قرارداد میں متعدد شقوں کو معطل کر دیا گیا تاکہ روس قرارداد کو ویٹو نہ کرے۔ دوسری جانب شام میں حکومت کے خلاف بر سر پیکار گروہ کے اتحاد میں بھی تبدیلی ہو رہی ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد میں یہ معین نہیں کیا گیا ہے کہ جنگ بندی کس تاریخ سے ہوگی، بلکہ صرف اتنا کہا گیا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو جنگ بندی کا نفاذ کیا جائے۔ اس سے ہر فریق الگ الگ مطلب نکال سکتا ہے اور یہ بھی جنگ کے جاری رہنے کا ایک سبب ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ قرارداد میں مخالف تنظیموں اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ نصرہ فرنٹ، داعش اور القاعدہ کو اس جنگ بندی کے معاہدے میں شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ ان تنظیموں کا خاتمہ کرنے اور انہیں اس علاقے سے نکالنے تک جنگ جاری رہے گی۔

تیسری بات یہ ہے کہ جیش الاسلام تنظیم نے جو سعودی عرب کی قریبی ہے اور فلیق الرحمن تنظیم نے جسے قطر کی حمایت حاصل ہے، خود کو دیگر دہشت گرد گروہوں سے جدا کر لیا ہے۔ دونوں انتہا پسند گروہوں نے بیان جاری کرکے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی پر عمل کریں گے اور جنگ زدہ علاقوں میں انسان دوستانہ امداد پہنچانے کا راستہ کھولنے کو تیار ہیں۔ اس طرح عالمی سیاسی عمل میں ممکن ہے کہ ان تنظیموں کو کوئی مقام مل جائے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ نصرہ فرنٹ  سے  تحریر السوریہ فرنٹ فرنٹ نامی انتہا پسند اتحاد کی جنگ شروع  ہوگئی ہے۔ تحریر سوریہ فرنٹ میں نور الدین زنکی اور احرار الشام جیسی کئی تنظیمیں شامل ہیں۔ یہ لڑائی ادلب کے مضافاتی علاقوں پر قبضہ قائم کرنے کے لئے ہو رہی ہے۔ نصرہ فرنٹ کے زیر تسلط  26 شہر اور گاؤں نکل گئے ہیں۔ اس طرح ادلب پر نصرہ  فرنٹ کا قبضہ بھی اب خطرے میں پڑ گیا ہے۔

یہ واضح ہے کہ جیش الاسلام اور فیلق الرحمن نے سیکورٹی کونسل کی قرارداد پر عمل کرنے کا اعلان کیا ہے تو وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ شامی فوج غوطہ کے ان علاقوں پر قبضہ کرکے جن پر نصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کا قبضہ ہے اور دہشت گردوں کا اس علاقے سے خاتمہ ہو جائے۔

روس، ایران اور شام کے اتحاد نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ دار الحکومت دمشق کے قریب واقع ان علاقوں کو پوری طرح سے دہشت گردوں سے پاک کر دیں گے اور دار الحکومت کو پوری طرح  محفوظ بنائیں گے۔

شامی فوج اور حکومت کا کہنا ہے کہ جیش الاسلام نے دمشق پر کوئی حملہ نہیں کیا بلکہ کم کشیدگی والے علاقوں سے متعلق سمجھوتے پر عمل کیا ہے۔ اس طرح سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شامی فوج کی جانب سے کی جانے والی بمباری میں ان علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا جن پر جیش الاسلام  یا فیلق الرحمن کا قبضہ ہے بلکہ ان علاقوں میں انسان دوستانہ امداد بھیجی جائے گی۔

غوطہ کے حوالے سے جو حکمت عملی تیار ہو رہی ہے وہ بالکل حلب والی حکمت عملی جیسی ہے۔ یعنی انتہا پسندوں کو علاقے سے باہر نکلنے کا موقع دیا جائے گا۔  دمشق کو پوری طرح  محفوظ  بنانا اہم اولویت ہے اور یہ اولویت بہت جلد پوری ہونے والی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے دار الحکومت پر مارٹر گولے گریں۔

سبز رنگ کی بسیں مشرقی غوطہ پہنچنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں جو اس سے پہلے دیگر علاقوں سے دہشت گردوں کے انخلا کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ یہی بسیں مشرقی حلب اور اس سے پہلے حمص سے انتہا پسندوں کو ادلب منتقل کر چکی ہیں۔

غوطہ میں بھی امن بحال ہو جائے گا جس طرح حلب میں بحال ہو چکا ہے اور اب شاید ادلب کی باری آنےوالی ہے بس مناسب وقت کا انتظار ہے۔

عبد الباری عطوان

عرب دنیا کے مشہور تجزیہ نگار

ٹیگس