Jun ۱۸, ۲۰۱۸ ۱۷:۱۴ Asia/Tehran
  • دہشت گردی کے خلاف ایران کی جنگ اور امریکا سعودی عرب اور اسرائیل کی پریشانی

امریکی اور اسرائیلی حکام ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتےہیں کہ شام میں ایران کی موجودگی ایک خطرہ ہے جبکہ ان کا یہ بے بنیاد دعوی درحقیقت علاقے سے متعلق امریکا اسرائیل اور سعودی عرب کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کا ایک بہانہ ہے.

امریکی صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے امور کے سابق مشیر میک مسٹر اسرائیل کے لئے ایران کے خطرے کے بارے میں کہتے ہیں کہ آج ہم چیز کو دیکھ رہے ہیں وہ اسرائیل کی سرحدوں پر ایران کی پراکسی فوج کی موجودگی ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے بھی فرانس کے صدر کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات میں کہا تھا کہ اسرائیل نے شام کے بارے میں اپنی اسٹریٹیجی تبدیل کردی ہے اور ہم شام میں ایران کی سرگرمیوں کو ٹارگٹ کریں گے۔

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ نتن یاہو نے اس سلسلے میں اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ ہم سرحدوں کے قریب اور شام کے اندر ایران کی فوجی موجودگی اور اس کی نیابتی فوج کی تقویت کی کوشش کو روکنے کے لئے اقدامات انجام دیں گے۔

یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب شامی حکام نے ایران کے خلاف اسرائیلی عہدیداروں کے دعوؤں کو یکسر مسترد کردیا ہے اور ایران نے بھی بارہا اعلان کیا ہے کہ شامی حکام کی سرکاری دعوت پر اس نے اپنے فوجی مبصرین شام کے لئے روانہ کئے ہیں تاکہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں وہ شامی فوج کی مدد کرسکیں۔

ایران نے موجودہ حساس صورتحال کو درک کرتے ہوئے علاقے کی سیکورٹی سے متعلق اہم ترین چیلنجوں اور دہشت گردی کے خلاف اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے - اور ایران کی اس کوشش کا علاقائی اور عالمی سطح پر مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے اور اسی حقیقت نے امریکا اسرائیل اور سعودی عرب کے منحوس تکون کو پریشان کررکھا ہے کیونکہ یہ تینوں اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا اور عالم اسلام میں اتحاد اور یکجہتی مستحکم ہوگئی تو علاقے پر امریکا کے ذریعے مسلط کیے گئے سیاسی اور سیکورٹی نظام کا شیرازہ پوری طرح سےبکھر جائے گا اوریوں علاقے میں امریکا کی بساط پوری طرح لپیٹ دی جائے گی۔

نتن یاہو کا بیان دراصل زخمی بھیڑئے کی طرح ہے جو ہر طرف دوڑتا ہے تاکہ خود کو بچانے کے لئے کوئی راستہ نکال سکے۔ لہذا کسی حدتک یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا اسرائیل اور سعودی عرب کی یہ شکست علاقے میں کشیدگی اور دشمنیوں کے ایک نئے دور کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ البتہ ان کشیدگیوں میں اضافے میں متعدد عوامل کو دخیل سمجھا جاسکتا ہے جن میں امریکا کی سرپرستی میں داعش کے خلاف نام نہاد اتحاد کی تشکیل، غزہ میں اسرائیل کے جرائم کی حمایت، امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی اور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ذریعے بے گناہ یمنی عوام کا قتل عام وہ عوامل ہیں جنھوں نے علاقے کی سیکورٹی کو وسیع تر خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔