Aug ۱۰, ۲۰۱۸ ۱۲:۴۹ Asia/Tehran
  • صیہونیوں کے سکھ چین چھن گئے!!! + مقالہ

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی فوجی شاخ عزالدین القسام بریگیڈ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے بدھ کی شام حماس کے وفد کے مصر پہنچ جانے کے بعد صیہونی کالونیوں پر 70 میزائل فائر کئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میزائلوں میں سے 11 کو اسرائیل کے ڈیفنس سسٹم آ‏ئرن ڈوم نے راستے میں ہی تباہ کر دیا لیکن باقی میزائل اپنے نشانے پر لگے جس کے بعد اسرائیل میں کہرام مچ گیا اور صیہونی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے وزیر جنگ اور فوجی افسروں کے ساتھ ہنگامی اجلاس کیا۔

فلسطینوں نے یہ حملہ تب کیا جب اسرائیل نے فلسطینی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس میں ایک فلسطینی شہید ہو گیا اور دیگر کئی زخمی ہوگئے۔ اس سے پہلے خبریں آ رہی تھیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل جنگی بندی پر اتفاق ہو گیا ہے تاہم مسلسل ہو رہے اسرائیلی حملوں  پر اعتراض کرنے کے لئے حماس کا وفد مصر گیا کیونکہ جنگ بندی میں مصر نے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔

جیسے ہی یہ وفد مصر کی سرحد میں پہنچا، پہلے سے تیاری کر چکی تحریک حماس نے اسرائیلی علاقوں پر میزائیلوں کی بارش کر دی۔ اسرائیل کی کوشش یہ تھی کہ جنگ بندی ہو جائے لیکن وہ الگ الگ بہانوں سے حماس کے ٹھکانوں پر حملے بھی کرتا رہے۔ یعنی فلسطینی تنظیمیں یکطرفہ جنگ بندی پر عمل کرتی رہیں جبکہ اسرائیل کو اپنی مرضی سے حملے کرنے کی چھوٹ رہے اور وہ فلسطینیوں کو دھمکاتا رہے کہ اگر انہوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تو غزہ پر وسیع پیمانے پر حملہ کر دیا جائے گا۔

فلسطینیوں نے اس چال کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے زوردار میزائیل حملہ کرکے کئی پیغامات دیئے ہیں۔ پہلا پیغام تو یہی ہے کہ اگر جنگ بندی ہوئی تو اسرائیل کو کسی بھی بہانے سے غزہ کے کسی بھی علاقے پر حملے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ اگر چہ اسرائیل نے کئی برسوں سے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور اس پورے علاقے کو کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے لیکن فلسطینیوں کی میزائل طاقت میں مسلسل اضافے کے عمل کو روک نہیں پایا ہے اور نہ ہی مستقبل میں روک پائے گا۔

اسرائیل ایسی حکومت ہے جس کا قیام فلسطین کی زمین پر غیر قانونی اور ناجائز طریقے سے قبضہ کرکے اور وہاں آباد فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرکے ہوا ہے۔ یہ فلسطینی آج بھی دنیا کے متعدد ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور وطن واپسی کے حق سے پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

اسرائیل نے اس کے ساتھ ہی علاقے کے ممالک پر اپنی طاقت کا رعب و دبدبہ بنانے کی کوشش شروع سے کی۔ اس طرح دیکھا جائے تو اسرائیل کا وجود ہی تشدد، غاصبانہ قبضے، دھمکی اور زور زبردستی پر ٹکا ہوا ہے تاہم اس درمیاں آہستہ آہستہ علاقائی تبدیلی رونما ہوئی اور ان کے نتیجے میں طاقت کا توازن اور علاقائی حالات بھی تیزی سے تبدیل ہوتے گئے۔   آج حالات یہ ہیں کہ اسرائیل یعنی مقبوضہ فلسطین کی کوئی بھی سرحد محفوظ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ مصر اور اردن کی سرحدیں بھی اسرائیل کے ساتھ محفوظ نہیں ہیں حالانکہ وہاں کی حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں اور ان ممالک میں اسرائیل نے اپنے سفارتخانے بھی کھول رکھے ہیں- حکومتوں سے تو اسرائیل نے تعلقات بحال کر رکھے ہیں لیکن عوام کے درمیان اسرائیل سے سخت نفرت پائی جاتی ہے اور اس کے غاصبانہ وجود کو لوگ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

علاقائی ممالک سے اسرائیل کے تعلقات پہلے بھی خراب رہے ہیں لیکن اب یہ بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ شام، لبنان اور فلسطینی میں ان محاذوں کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جو اسرائیلی قبضہ ختم کروانے کے لئے پرعزم ہیں اور اس ہدف کے حصول کے لئے طولانی اور چھوٹے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

ٹیگس