Oct ۱۳, ۲۰۱۸ ۱۰:۰۰ Asia/Tehran
  • صحافی کا قتل، آل سعود کے گلے کی ہڈی، چوتھی بیوی کے انکشافات ... مقالہ

ترک سیکورٹی اہلکاروں نے اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کیا کہ ان کی جانب سے ایک پریس کانفرس کی جائے گی جس میں ویڈیو کلپ کی مدد سے یہ بتایا جائے گا کہ گزشتہ منگل کو استنبول شہر میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سینئر صحافی جمال خاشقجی کو اغوا کر لیا گیا۔

یہ بھی امید تھی کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان اپنے بیان سے بہت سے سوالوں کا جواب دیں گے، کم از کم یہ پتہ چل جائے گا کہ جمال خاشقجی زندہ ہیں یا نہیں اور اگر زندہ ہیں تو ترکی میں ہیں یا وہاں سے انہیں کہیں اور پہنچا دیا گیا ہے۔ اگر ان کو قتل کر دیا گیا ہے تو ان کی لاش کہاں ہے؟

مگر ترک صدر نے جو بیان دیا اس سے شک و شبہات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں وہ چیز سامنے نہیں آئے گی جسے ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ شک و شبہات اس لئے بڑھ گیا کہ ان کے دو مشیروں نے کہا ہے کہ سینئر سیکورٹی ذرائع سے یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے کی عمارت کے اندر قتل کر دیا گیا ہے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ صحافی کو کیسے قتل کیا گیا اور پھر کس طرح ان کی لاش عمارت سے باہر لے جائی گئی خاص طور پر اس لئے کہ عمارت کے اندر جتنے بھی سی سی ٹی وی کیمرے لگے تھے سب بند تھے۔

سعودی قونصل خانے کا کہنا ہے کہ جس وقت صحافی عمارت میں پہنچے اس وقت سارے کیمرے بند تھے۔ کیا ان کیمروں کو جان بوجھ کر بند کر دیا گیا تھا یا واقعی خراب ہوگئے تھے؟

ایک نیا بیان ترک حکومت کی جانب سے آیا ہے جس سے پیچیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ اس بیان کے مطابق، 15 سعودی شہری جو ممکنہ طور پر سعودی سیکورٹی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، دو طیاروں سے استنبول پہنچے اور جس وقت جمال حاشقجی قونصل خانے گئے تھے اس وقت یہ 15 افراد پہلے سے موجود تھے اور پھر کچھ دیر بعد وہاں سے چلے گئے۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ اپنے سوٹ کیسوں میں کیا لے کر گئے؟ کیا ان میں جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے تھے یا ان کو قونصل خانے سے کہیں اور لے جا کر قتل کیا گیا؟

دو نظریے بیان کئے جا رہے ہیں۔ پہلا نظریہ یہ ہے کہ وہ 15 افراد سعودی سیکورٹی اہلکار تھے جو اخوان المسلمین اور حکومت قطر سے جمال خاشقجی کے تعلقات کی تحقیقات اور ان کو قتل کرنے کے لئے وہاں پہنچے تھے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ افراد جمال خاشقجی سے گفتگو کے لئے آئے تھے تاکہ مسئلے کو نمٹا کر جمال خاشقجی کو ریاض پہنچا دیا جائے۔ ایک مشہور ترک صحافی نے یہ دونوں نظریات بیان کئے ہیں۔

ایک خاتون نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ایک اخبار کو بتایا کہ وہ اس وقت ایک عرب ملک میں مقیم ہیں اور وہ جمال خاشقجی کی چوتھی بیوی ہیں۔ دونوں نے نیویارک میں شادی کی تھی جہاں اسلامی سینٹر کے امام نے ان کا نکاح پڑھا تھا۔ یہ شادی گزشتہ رمضان میں ہوئی تھی۔ نکاح کے دو گواہ تھے اور دونوں فلسطینی نژاد تھے۔ خاتون کا کہناہے کہ اسکے پاس شیرٹن ہوٹل میں ہونے والی اس شادی کی تقریب کے فوٹو اور ویڈیو سب موجود ہیں۔ اس خاتون کی جمال خاشقجی کی آخری بار 7 ستمبر کو نیویارک کے اسی ہوٹل میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد 25 ستمبر کو فون پر گفتگو ہوئی اور 30 ستمبر کو جمال خاشقجی نے خاتون کو یوم پیدائش پر مبارک باد پیغام بھیجا تھا۔

خاتون کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی بہت زیادہ مایوس اور خوفزدہ تھے۔ انہیں بہت تنہائی کا احساس ہو رہا تھا تاہم اس خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ترکی نہیں جانا چاہتے تھے آخرکار جمال نے شامی پناہ گزین خاتون سے شادی کرنے کا ارادہ بھی کر لیا تھا۔ خاتون کا کہنا ہے جمال خاشقجی پوری طرح دیوالیہ ہو چکے تھے اور بہت پر بہت زیادہ قرضہ ہو گیا تھا۔ وہ بارہا کہتے تھے کہ سعودی عرب واپس جا کر حکومت سے جو اختلافات ہیں انہیں حل کر لیا جائے۔

ہمیں نہیں معلوم کی یہ بیان کہاں تک صحیح ہے لیکن اس خاتون کو اچھی طرح پہچانتےہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ چھوٹ نہیں بولتی۔ یہ خاتون جمال خاشقجی کے حامیوں میں تھی اور دونوں کے درمیان مسلسل گفتگو ہوتی رہتی تھی ۔

سعودی حکومت اپنے ناقدین کو ہرگز نہیں بخشتی چاہے ان کی تنقیدوں میں نرمی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی مثال جمال خاشقجی، جن کا بیان اور جن کے مقالے بڑی نرمی کے ساتھ سعودی عرب کے داخلی حالات میں اصلاح پر تاکید کرتے تھے۔

وہ موجودہ نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے اصلاح کی بات کرتے تھے۔ جب سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملی یا اقتصادی شعبے میں انہیں بڑے عہدے دیئے گئے تو جمال خاشقجی نے اس کا استقبال کیا مگر جب سعودی کارکنوں کو غیر ملکی سفارتخانوں سے تعلقات کے الزام عائد کرکے گرفتار کیا گیا تو جمال نے اس کی مذمت کی۔ وہ یمن پر سعودی عرب کے حملوں کے حامی تھے اور شام میں سعودی عرب کی مداخلت کو صحیح قرار دیتے تھے۔

ولیعہد محمد بن سلمان اس خیال کے آدمی ہیں کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ ان کے یہاں کسی کے غیر جانبدار ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ مشہور مبلغ ڈاکٹر سلمان العودہ کو اس لئے دہشت گردی کا الزام عائد کرکے گرفتار کر لیا گیا کہ انہوں نے سعودی حکومت کو قطر کے ساتھ مذاکرات کی تجویز دے دی تھی۔ آرامکو کمپنی کے شیئر فروخت کرنے کے منصوبے کی تنقید کرنے کی وجہ سے مشہور اقتصاد داں عصام الزامل پر بھی دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کر دیئے گئے کہ اٹارنی جنرل نے انہیں سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔

محمد بن سلمان نے کچھ دن پہلے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے ملک میں سیاسی قیدیوں کی تعداد 1500 سے زائد نہیں ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تعداد، ترکی میں اردوغان حکومت کے ذریعے گرفتار کئے گئے ہزاروں افراد کی بہ نسبت کافی کم ہے۔ تاہم محمد بن سلمان یہ فراموش کر گئے کہ ترکی میں تو فوجی بغاوت ہوئی تھی جس کے بعد یہ گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں، البتہ گرفتار افراد میں کچھ ایسے تھے تو بنیادی اصلاح کا مطالبہ کر رہے تھے۔  

اگر اس بات کی تایید ہو جاتی ہے کہ جمال خاشقجی کو اغوا سعودی سیکورٹی اہلکاروں نے کیا تو یہ کہنا پڑے گا کہ بہت بڑی مچھلی پر ہاتھ ڈالا گیا جس سے دنیائے عرب بلکہ عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے اور اس کا مقصد سعودی مخالفین کو خوفزدہ کرنا اور ناقدین کو یہ پیغام دینا کہ سعودی سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔

ہم جلد بازی میں کچھ نہیں کرنا چاہتے بلکہ ترک صدر اردوغان کی طرح ہم بھی یہ امید کرتے ہیں کہ جمال خاشقجی صحیح سلامت ہوں گے۔

بشکریہ

عبدالباری عطوان

مشہور عرب تجزیہ نگار

ٹیگس