Dec ۱۹, ۲۰۱۸ ۰۷:۱۶ Asia/Tehran
  • مغربی کنارے کی دھماکہ خیز صورتحال، اسرائیل کی الٹی گنتی شروع / مقالہ

فلسطین میں مغربی کنارے کے علاقے میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں میں اضافے سے جن میں کم از کم تین صیہونی ہلاک اور دس دیگر زخمی ہوگئے،

یہ نتیجہ برآمد کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتنیاہو جو مشرق وسطی میں کچھ عرب حکومتوں اور افریقہ کے کچھ ممالک کو یہ یقین دہانی کرانے میں مصروف ہیں کہ اسرائیل، ان کی تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ ممالک اس کے سیکورٹی تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس کے تخت و تاج کی حفاظت کر سکتا ہے، اب خود اسرائیلیوں کی حفاظت میں ناکام ہو گئے ہیں اور انہیں امن و استحکام کی فضا فراہم کرا پانا ان کے بس کی بات نہیں ہے ۔

نتن یاہو کی سیکورٹی طاقت جس پر وہ عرب دوستوں کے سامنے بہت اتراتے ہیں، مغربی کنارے کے علاقے میں اسلامی مزاحمت محاذ سے متعلق جیالوں کی شجات کے سامنے زمین بوس ہو چکی ہے۔ اس سلسلے کی شروعات شہید اشرف نعلوۃ نے کی جنہوں نے برکان نامی صنعتی کامپلیکس میں زبردست حملہ کیا، اس کے بعد صالح البرغوثی نے عوفر کے علاقے میں اسرائیلیوں کو نشانہ بنایا نیز تیسرا حملہ ان کے تیسرے ساتھی نے عوفر کے ہی علاقے میں انجام دیا اور حملہ کرکے فرار ہو گیا ۔ ان جیالوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اسرائیلی سیکورٹی طاقت ایسی نہیں ہے جس پر نتن یاہو فخر کر سکیں ۔

نعلوۃ کو پکڑنے کے لئے اسرائیل نے اپنی انٹلیجنس اور سیکورٹی ایجنسیاں لگا دیں جو 66 دنوں تک دن رات نعلوۃ کی تلاش میں گوشے گوشے پھرتی رہیں، ساتھ ہی انہوں نے مقامی مخبروں کی بھی مدد لی تاہم وہ نعلوۃ کو تلاش نہ کرسکیں ۔ بہت ممکن ہے کہ فلسطینی سیکورٹی اہلکاروں نے جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اس فلسطینی جوان کے چھپنے کی جگہ کے بارے میں اسرائیلی فوجیوں کو بتا دیا ہو ۔  

شہید نعلوۃ نے ہتھیار نہیں ڈالے اور اس گھر میں آخری سانس تک لڑتے رہے جو انہیں ان کے ساتھیوں نے مہیا کرایا تھا۔ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے اللہ کے نزدیک وعدہ کیا ہے کہ شہادت کو گلے لگائیں گے اور جنت میں جگہ بنائیں گے، آحرکار نہیں وہ مل گیا جس کی آرزو  وہ کرتے تھے ۔

مغربی کنارے اور غزہ پٹی کے علاقے کو متحد کرنے کے لئے مصر کی ثالثی سمیت تمام کوششیں ناکام ہوئیں تاہم اسرائیلی قبضے کے مقابلے میں مزاحمت کے جذبے نے ان دونوں علاقوں کے لئے لوگوں کو متحد کر دیا جو بڑی بڑی تقریروں کی نہیں بلکہ ٹھوس عمل کا سبق دیتی ہے ۔

فلسطین میں مغربی کنارے کا علاقہ بہت ہی غصور ہاتھی کی طرح ہے جس کی حرکت بہت آہستہ ہوتی ہے لیکن جب یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو جو کچھ سامنے نظر آتا آتا ہے تباہ کر دیتا ہے اور پھر اس پر کنٹرول کر پانا ممکن نہیں ہوتا۔ یا اس کی مثال اصلی عربی اونٹ سے دی جاسکتی ہے ہے جو بہت صابر ہوتا ہے، ہر مشکلات یہاں تک کہ بے عزتی بھی برداشت کرتا ہے لیکن جب وہ انتقام لینا شروع کرتا ہے تو اس انتقام کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔

اس وقت مغربی کنارے کے علاقے میں جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ اسرائیل کے ہاتھوں طویل مدت سے بے عزتی برداشت کرنے کے بعد کی انتقامی کاروائی ہے ۔ یہ ٹھوس اور طاقتور رد عمل ہے جو انہیں خبردار کر رہا ہے جنہوں نے فلسطینی قوم کے حقوق کے ساتھ سودا کیا ہے اور جنہوں نے اسرائیل کو اپنا دوست اور ساتھی سمجھا ہے ۔

مغربی کنارے کے شجاع جوان صرف اسرائیلی مظالم کا بدلہ نہیں لے رہے ہیں بلکہ وہ محمود عباس کے فلسطینی انتظامیہ کو بھی سبق سکھا رہے ہیں جس نے فلسطینیوں کے نام پر خود کو پیش کیا لیکن اسرائیلی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے ۔

حالیہ دنوں میں جو بھی کاروائیاں ہوئی ہیں ان میں ایک چيز مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ حملوں میں اسرائیلیوں اور ان کی حفاظت کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ اسرائیلیوں اور ان کے رہنماؤں کو سخت پیغام ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر جس پر انہوں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے وہ سکون سے زندگی بسر نہیں کر پائیں گے، ان کا وجود غیر قانونی ہے اسی لئے سارے اسرائیلیوں کو یہاں سے جانا پڑے گا اور اگر وہ اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو فورا فلسطینی علاقوں سے واپس چلے جائیں ۔

حماس نے جس نے حالیہ تین حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، ایک بیان میں کہا کہ اس تنظیم کی مزاحمت کارانہ کاروائیوں کی شروعات کو 31 سال پورے ہونے کے موقع پر یہ حملے کئے گئے ہیں ۔ حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ غاصب اسرائیل مغربی کنارے کے علاقے میں امن و استحکام کا خواب نہ دیکھے ۔ یہ علاقے سلگتی ہوئی جنگاری کی طرح ہے جو سبھی مقبوضہ اسرائیلی بستیوں کو راکھ کر دیں گے۔

فلسطین میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اگر کبھی مزاحمت رکی ہے تو فورا دوبارہ شروع ہو گئی ہے اور جب دوبارہ شروع ہوئی تو پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر سامنے آئی ہےاور اس نے غاصب اسرائیل کی جڑیں ہلا دیں  اور اسرائیل کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ۔

اسلامی مزاحمت کو نہ تو نتن یاہو کی دھمکیوں کا ڈر ہے اور نہ نئی صیہونی کالونیوں کی تعمیر کا کوئی خوف ہے اس لئے کہ اس کے نظریہ میں یہ پختگی پائی جاتی ہے کہ پورا کا پورا فلسطین، فلسطینیوں کے ہاتھ میں لوٹے گا اور اس کے لئے بہت زیادہ انتظار بھی نہیں کرنا پڑے گا ۔

بہت سے پختہ ثبوت ہیں جنہیں اسرائیل اور امریکا ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایک ثبوت یہی ہے کہ فلسطینی قوم کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالتی بلکہ سازش کرنے والوں پر میز الٹ دیتی ہے اور سارے اندازوں کو بدل دیتی ہے ۔

بڑی تبدیلیوں کا آغاز حالیہ برسوں کی چار جنگوں میں اسرائیل کی واضح شکست سے ہو چکا ہے ۔ اس میں حالیہ جنگ بھی شامل ہے جو 48 گھنٹے ہی چلی اور اتنی دیر میں اسرائیل کے پسینے چھوٹ گئے کیونکہ فلسطینی تنظیموں نے بڑی دقت سے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کی نمائش کی ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نتن یاہو نے مصر کی مدد سے فوری جنگ بندی نہ کروائی ہوتی تو انہیں مزید بہت کچھ دیکھنے کو ملتا جس پر وہی نہیں پورا اسرائیل حیران رہ جاتا ۔

حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے حال ہی میں اسرائیلیوں کو نصیحت کی کہ وہ فلسطینی علاقوں کو چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ آنے والی جنگ میں ایندھن نہ بن جائیں ۔ یہ نصیحت بالکل صحیح تھی اور شاید اب صیہونیوں کو پاس زیادہ وقت نہیں بچا ہے ۔ ایران کی القدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے اسرائیلیوں کو نصیحت کی وہ تیرنا سیکھ لیں کیونکہ ان کے پاس بحیرہ روم کے راستے فرار ہونے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوگا ۔ اب ہمیں انتظار کرنا ہے کہ حماس کی فوجی شاخ کے سربراہ محمد ضیف اسرائیلیوں کو کیا نصیحت کرتے ہیں ۔

اسرائیلیوں نے امن کا ہر موقع گنوا دیا بس وہ فلسطینی علاقوں میں اپنی بستیوں کی تعمیر کی ضد پر اڑے رہے انہوں نے فلسطینیوں کو دھوکہ دیا لیکن اب ان کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کریں ۔

رای الیوم

عبد الباری عطوان، مشہور عرب تجزیہ نگار

ٹیگس