Feb ۱۶, ۲۰۱۹ ۰۷:۲۲ Asia/Tehran
  • شام سے تعلقات بحال کرنے کی مقابلے بازی، علاقے کے تین اہم اجلاس

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے پاس آنے والے دنوں میں بہت سخت آپشن ہوں گے اور یہی آپشن ان کے راستے کا تعین کریں گے کیونکہ حالیہ مہینوں میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے وقت حاصل کرنے کی جو حکمت عملی اختیار کی تھی اب اس کا وقت پورا ہوچکا ہے ۔

ان آپشنز کا ذکر کرنے سے پہلے تین سربراہی اجلاس کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے جن کے نتائج مشرق وسطی کی نئی جہت مشخص کر سکتے ہیں ۔ ان کا اثر عرب – اسرائیل تنازع پر بھی مرتب ہوگا، اس کا اثر ایران کے حوالے سے بھی ہوگا ۔ ان تینوں اجلاس کے لئے روس کے شہر سوچی، پولینڈ کے وارسا اور روس کے دار الحکومت ماسکو کا انتخاب کیا گیا ہے ۔

پہلا سربراہی اجلاس سوچی میں منعقد ہوا جس میں صدر ولادیمیر پوتین، ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور ترکی کے صدر رجب طیبب اردوغان نے شرکت کی۔ یہ اجلاس بدھ کے روز منعقد ہوا ۔

دوسرا اجلاس پولینڈ کے شہر وارسا میں امریکا منعقد کروا رہا ہے تاہم اس اجلاس میں سربراہوں کے بجائے وزرائے خارجہ جائیں گے ۔ اس کا عنوان رکھا گیا ہے مشرق وسطی میں امن اور سیکورٹی ۔ اس کے اسٹار مقرر اسرائیلی وزیر اعظم  بنیامن نتن یاہو ہوں گے، اس کے علاوہ امریکا کے نائب صدر مائیک پینس اور امریکی صدر کے داماد جیئرڈ کوشنر اس میں نظر آئیں گے۔

خلیج فارس کے عرب ممالک نیز اردن اور مصر کے وزرائے خارجہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے ۔ اس اجلاس میں ایران کے خلاف سازشوں پر غور و فکر کیا گیا اور اسرائیل – عرب دوستی کا نیا منصوبہ تیار کرنا تھا ۔

تیسرا سربراہی اجلاس روس کے دار الحکومت ماسکو میں منعقد ہونے والا ہے جس میں ولادیمیر پوتین کے مہمان اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہوں ہوں گے اور ان کی گفتگو کا موضوع ہوگا، مسئلہ شام اور شام میں ایران کی موجودگی ۔

یہ ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ امریکا آہستہ آہستہ مشرق وسطی سے اپنا دامن جھاڑ رہا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فطرت اقتصادی نفع و نقصان پر مرکوز ہے، اسی لئے وہ جب سے بر سر اقتدار ہوئے ہیں ان کے زیادہ تر بیانوں میں اربوں ڈالر کی آمدنی، سعودی عرب سے پیسے لینے، متحدہ عرب امارات سے پیسے لینے، چینی پیداواروں پر ٹیکس لگانے کی باتیں سنائی دیتی ہیں ۔

ٹرمپ نے جب شام سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا اور افغانستان سے بھی فوجیوں کے انخلاء کی جانب اشارہ کیا تو مشرق وسطی میں امریکی اتحادیوں کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ اسرائیل کو بھی ٹرمپ کے فیصلے سے کاری ضرب لگی ہے۔ یہی سبب ہے کہ متعدد عرب ممالک نے فوری طور پر دمشق کے دورے شروع کر دیئے۔ جن ممالک اور تنظیموں کو امریکا سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں، انہیں اچانک یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں اسی لئے ان کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ شام سے تعلقات استوار کر لیں ۔

عرب ممالک کے ساتھ ہی ترکی نے بھی شام سے تعلقات بہتر بنانے کے اشارے دیئے ہیں ۔ ترک حکام نے بیان دیا کہ شام کے ساتھ ترکی کے خفیہ حکام کے سطح کے تعلقات ہیں ۔

امریکا کے اندر اس حالت سے تشویش پیدا ہو گئی ہے کہ امریکا کے اتحادی یہ خیال کر رہے ہیں کہ امریکا نے ان کے ساتھ خیانت کی ہے ۔ اپنے اتحادیوں کی توجہ اس بات سے ہٹانے کے لئے امریکا نے وارسا اجلاس منعقد کیا ہے اور یہ یقین دھانی کی کوشش کی ہے کہ ایران کے خلاف جنگ میں وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہے ۔

تاہم مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ مشرق وسطی کے پورے علاقے میں امریکا کے اثر و رسوخ بہت تیزی سے محدود ہو رہا ہے ۔ اس لئے امریکا کے اتحادیوں کی تشویش اپنے عروج پر ہے خاص طور پر اس لئے بھی کہ ان کے درمیان آپسی اختلافات بھی کافی شدید ہیں ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ قطر اور ترکی کے اختلافات تو برملا ہو بھی چکے ہیں ۔  

اس درمیان جہاں عرب ممالک کی کوشش ہے کہ شام سے ان کے قدیمی تعلقات بحال ہوں وہیں ترکی بھی شام سے اپنے اختلافات سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہے اور روسی صدر ولادیمیر پوتین اس حوالے سے ترکی کی کافی مدد کر سکتے ہیں ۔

ٹیگس