Feb ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۳:۳۰ Asia/Tehran
  • تلملا اٹھے سعودی نمکخوار! ۔ ویڈیو

پاکستان میں بعض سعودی نمکخوار صدائے حق کو سن کر چراغ پا ہو اٹھے!

خداوند عالم نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور قوت غور و فکر سے نوازا اور اسی نعمت کو انسان کے لئے دوسری تمام مخلوقات پر وجہ برتری قرار دیا۔ دین اسلام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ عقل و منطق اور فطرت سے ہماہنگ ہے اور اس کے یہاں تنگ نظری، بے جا تعصب اور جہالت کا کوئی مقام نہیں۔

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالم اسلامی میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو عقل و منطق اور شعور و آگاہی کو ترجیح دینے کے بجائے جاہلانہ اور متعصباہ جذبات کو ترجیح دیتا ہے اور اسی بنیاد پر اپنی فکری،سماجی اور اعتقادی بنیادوں کو استوار کرتا ہے۔

اسکی ایک مثال عالم اسلام میں موجود اس طبقے کی ہے جو سرزمین حجاز پر قابض سامراجیت کے پروردہ قبیلۂ آل سعود کا مرید و متوالا ہے۔ یہ طبقہ قبیلۂ آل سعود کے جُبّوں،انکی عباؤں قباؤں اور دستاروں سے مرعوب ہو کر اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کھو چکا ہے۔ جسے نہ تو قبیلۂ آل سعود کے ماضی کی کوئی خبر ہے اور نہ ان کے حالیہ کرتوتوں سے اسے کوئی لینا دینا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ اس بارے میں کچھ جاننا بھی نہیں چاہتا۔اس طبقے کی نظر میں قبیلۂ آل سعود کی محبوبیت کے لئے یہی کافی ہے کہ ’’بظاہر‘‘ انہیں حرمین شریفین کی خدمت کا شرف حاصل ہے اور بقدر کافی وہ اپنے پیٹرو ڈالر کی بدولت اپنے مریدوں کو  نوازتا بھی رہتا ہے اور گویا اس قبیلے کا نزول آسمان سے ہوا ہے۔

اس طبقے کی مجبوری یہ ہے کہ یہ قبیلۂ آل سعود کے بارے میں کوئی بھی غلط بات نہیں سن سکتا اور گویا اس نے اسے ’’معصوم عن الخطا‘‘ سمجھتے ہوئے دائرۂ عصمت میں شامل کر لیا ہے جس کے بعد خطا لغزش، گناہ اور غلطیوں کا امکان فرد کے یہاں ختم ہو جاتا ہے اور پھر اسکی ہر ادا پر اعتماد کرتے ہوئے آنکھ بند کر کے ایمان لایا جا سکتا ہے۔ اس طبقے میں حریت پسندی آزادی ضمیر اور حق و انصاف جیسے الفاظ بظاہر کوئی مفہوم نہیں رکھتے اور انہیں دیکھ کر فورا دماغ میں اس آیۂ مبارکہ کی آواز گونجنے لگتی ہے جس میں منافقوں کی توصیف کرتے ہوئےخداوند سبحان کا ارشاد ہوتا ہے:

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ؛پس وہ ایسے بہرے، گونگے اور اندھے ہیں کہ اب گمراہی سے راہِ ہدایت کی طرف نہیں لوٹیں گے۔(بقرہ/18)

یا پھر ارشاد ہوتا ہے:لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ؛ان کے دل و دماغ ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں۔ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ہیں۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ (اور گئے گزرے) ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بالکل غافل و بے خبر ہیں۔(اعراف/179)

عالمی سطح پر قبیلۂ آل سعود نے جو کردار پیش کیا ہے اس سے بلا تفریق مذہب و مسلک تمام باشعور،بیدار،منصف مزاج اور پڑھے لکھے لوگ تو آگاہ ہیں ہی،ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اہم عالمی ادارے اور تنظیمیں بھی بخوبی باخبر ہیں اور نتیجتاً قبیلۂ آل سعود عالمی تنظیموں کے علاوہ منصف مزاج، باشعور اور حریت پسند حلقوں میں ایک منفور عنصر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ایسا عنصر جو غفلت و عدم آگہی کا شکار بے شمار مسلمانوں کے پاکیزہ جذبات سے کھیلنا اچھی طرح جانتا ہے۔

 یمن میں بے گناہ مظلوموں کا قتل عام ہو یا وہاں پر قہر ڈھانے والی وبا اور بھکمری ہو یا پھر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے کے اندر بہیمانہ طور سے جمال خاشقجی کا ہونے والا قتل،یا آزادی اور جدت پسندی کے نام پر ’’سرزمین وحی‘‘ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے وہاں خواتین و مرد کے ملے جلے اجتماع کے لئے ایسے کنسرٹ کا اہتمام ہو کہ جس میں عربی، یورپی اور امریکی  گلوکارائیں آکر اپنا ہنر بھکیرتی ہوں۔یہ صرف حالیہ دنوں میں پیش آنے والی چند ایک موٹی مثالیں ہیں جن کا شمار قبیلۂ آل سعود اور بالخصوص اسکے نور چشم سمجھے جانے والے شہزادے بن سلمان کے ’’حسین‘‘ کارناموں میں ہوتا ہے۔

ٹیگس