Sep ۲۶, ۲۰۱۹ ۰۸:۳۵ Asia/Tehran
  • مصر میں انقلاب کی نئی لہر، کیا السیسی کے آخری دن چل رہے ہیں؟

مصر کے قاہرہ اسکندریہ اور دیگر بڑے شہروں میں اچانک مظاہرے شروع ہوگئے اور حکومت کی برطرفی کے مطالبات پر مبنی نعروں کی ہر طرف گونج، وہ واقعہ ہے جس نے سب کو حیران کر دیا کیونکہ 2014 میں جنرل عبد الفتاح السیسی نے جب سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اس کے بعد سے اس طرح کے مظاہرے اور حکومت کی سرنگونی کے مطالبے نایاب چیز بن گئے تھے ۔

مظاہرین کی تعداد کے بارے میں الگ الگ دعوے کئے گئے ہیں ۔ کچھ میں کہا گیا ہے کہ جمعے کی شام ہونے والے مظاہروں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ کچھ رپورٹوں میں اس تعداد کو دسیوں اور سیکڑوں بتائی گئی ہے۔  

ان مظاہروں کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان کی شروعات اسپین میں رہنے والے مصری نژاد فنکار محمد علی کی کال پر ہوئی جنہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے متعدد ویڈیوز جاری کرکے صدر عبد الفتاح السیسی اور فوج پر الزام عائد کیا کہ وہ حکومتی خزانے کو ان منصوبوں پر برباد کر رہی ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ان میں سے ایک منصوبہ صدارتی ہاوس سے متعلق ہے۔ ان ویڈیو کلپس پر اتنے وسیع پیمانے پر بحث شروع ہوگئی کہ صدر السیسی نے الزامات کا جواب دیا کہ وہ ایماندار اور وفادار ہیں، الزامات بے بنیاد ہیں البتہ انہوں نے اعتراف کیا کہ صدارتی ہاوس پر رقم خرچ کی جا رہی ہے لیکن یہ ان کا اثاثہ نہیں بلکہ مصر کا اثاثہ ہے۔

ملک میں وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور جگہ جگہ فوج کی تعیناتی سے حالات بالکل مختلف سمت بڑھنے لگے ہیں اور نیویارک کے سفر پر گئے السیسی کو اس وقت یہی ٹھیک لگا کہ وہ نیویارک میں ہی رکے رہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اور متعدد شہروں میں ایک ساتھ شروع ہونے والے یہ مظاہرے بدستور جاری رہیں گے؟ کیا وہی حالات پھر ہو جائیں گے جو 2014 میں نظر آئے تھے؟ فوج کو شدید تشویش ہے کیونکہ ملک کے اندر غریبی، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو بدحال کر رکھا ہے۔ مخالفین کی سرکوبی کے لئے فوج چونکہ طاقت کا استعمال کر رہی ہے اسی لئے عوام میں شدید غم و غصہ بھی ہے۔ عوام کئی سال تک یہ سوچ کر خاموش رہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال آہستہ آہستہ بہتر ہو جائے گی تاہم اب مصری عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے جہاں کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔

اس وقت محمد علی کے ویڈیو پر عوام کا سڑکوں پر نکل پڑنا، شاید یہ پیغام ہے کہ اب عوام کو اپنی جان کی فکر نہیں ہے اور وہ بغیر خوف و ہراس کے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ لوگوں نے خوف کی زنجیریں توڑ دی ہیں، انہیں نہ تو گرفتاری کا خوف ہے اور نہ ہی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جانے کی فکر ہے۔

مصر کے لوگوں سے گفتگو کیجئے تو زیادہ تر یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ شام اور لیبیا جیسے بحرانوں میں اپنے ملک کو جھونکنا نہیں چاہتے لیکن ان کے سامنے الجزائر اور سوڈان کی مثالیں ہیں جہاں عوام نے پر امن مظاہرے کئے اور ان کے مظاہرے کامیاب بھی ہوئے وہاں کی حکومتیں برطرف ہوئیں اور نئی حکومت کی تشکیل کا راستہ ہموار ہوا۔

مصری انتظامیہ کو بھی سوڈان اور الجزائر کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ گفتگو کا راستہ کھولنا چاہئے اور قومی اتحاد کے لئے مناسب ماحول تیار کرنا چاہئے تاکہ مصر دنیائے عرب کی قیادت کی پوزیشن تک پہنچ سکے ۔

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

ٹیگس