Oct ۰۲, ۲۰۱۹ ۰۹:۲۳ Asia/Tehran
  • آرامکو پر حملے سے تل ابیب میں ہنگامہ کیوں؟ اسرائیلی اخبار ہارٹس کا جائزہ

اسرائیل کے ایک مشہور اخبار نے لکھا ہے کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے حالیہ دقیق اور موثر حملے نے اپنے فوجی اور صنعتی تنصیبات کی کمزوری کے حوالے سے تل ابیب کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

تل ابیب سے شائع ہونے والے اخبار ہارٹس نے اپنے ایک مقالے میں لکھا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہوئے حالیہ حملے نے سب سے زیادہ اسرائیل کو وحشت میں ڈال دیا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو جس چیز نے زیادہ وحشت زدہ کیا ہے وہ پابندیوں کے خاتمے کے مقصد سے امریکا کو مجبور کرنے کے لئے ان حملوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ یمنی فوج اور رضاکار فورس نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ہارٹس کے مطابق مغرب کی خفیہ ایجنسیوں کو پورا یقین ہے کہ اس حملے میں ایران کا ہاتھ ہے کہ جس نے سعودی عرب کی تیل صنعت کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا ، دنیا کی انرجی کے بازار میں ہنگامہ مچا دیا اور خلیج فارس کے ساحلی عرب ممالک کے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دیں ۔

اس اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے خیال میں سعودی عرب کی تیل تنصیاب پر حملہ، ایک فیصلہ کن واقعہ ہے جس کا نتیجہ ٹرمپ کے اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے علاقے کے لئے وسیع البنیاد ہوں گے۔

اتنے دقیق اور موثر حملے نے اسرائیل کے بنیادی اور اسٹراٹیجک ڈھانچے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ ایران نے اپنے ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ لبنان میں حزب اللہ کو یا تو منتقل کر دیا ہے یا پھر ضرورت پڑنے پر بڑی تیزی سے منتقل کر سکتا ہے۔

ایک مشہور ویب سایٹ دبکا فائیل نے بھی صیہونی فوجی جرنلوں کے حوالے سے کہا ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایران کا اگلا حملہ اسرائیل کے خلاف نہيں ہوگا۔ اس بنیاد پر صیہونی فوج اپنے آپ کو ایران کے کروز میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے مقابلے کے لئے تیار کر رہی ہے جو ممکنہ طور پر ایران، عراق، شام، لبنان یا غزہ پٹی کے متعدد علاقوں سے اسرائیل کے اسٹراٹیجک اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔ البتہ اس بے بنیاد رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے بعد ایران کا اگلا ہدف متحدہ عرب امارات ہوگا۔ اور اگر ایران نے پہلے متحدہ عرب امارات کو ہدف بنایا تب بھی اگلے مرحلے میں اسرائیل پر حملہ ضرور کرے گا۔

صیہونی میڈیا میں کئے جانے والے اس پروپیگینڈے کے کچھ سیاسی اور تبلیغاتی اہداف ہو سکتے ہیں، جیسے

صیہونی حکومت کو زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لئے امریکا اور یورپ کو مجبور کرنا، ہارٹس کے مقالے کا یہ حصہ اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کرتا ہے کہ حزب اللہ کے پاس راکٹوں کا جو بڑا ذخیرہ ہے اس کے مد نظر مستقبل میں اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا کہ اسرائیل کو ایک قابل توجہ فوجی امتیاز حاصل ہو۔  

ایران کو اسرائیل کے لئے خطرہ بتا کر ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے لئے امریکا کو مجبور کرنا۔ اس حوالے سے اخبار کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا ٹرمپ انتظامیہ کا فیصلہ، اس بات کا سبب بنے گا کہ سعودی اتحاد اور اسرائیل کو تباہ کرنے کی کوشش میں تہران کا ہاتھ کھلا رہے۔ اسرائیل کی مشترکہ فوجی کمان کا بھی یہی خیال ہے کہ ایران، اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔

بہرحال جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ والے جانتے ہیں کہ علاقے میں ان کے اسٹراٹیجک مفاد پر تہران کی حکمرانی اور ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، مذاق نہیں ہے اور ایران کے خلاف فوجی آپشن کے استعمال کے فیصلے کا نتیجہ ایسا ہوگا جس کی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ اس بنیاد پر صیہونی حکومت ایک- دو مقالوں کے ذریعے امریکا اور یورپ کو اس طرح کے فیصلے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔

ٹیگس