Nov ۲۲, ۲۰۲۰ ۱۹:۱۴ Asia/Tehran
  • قانونی حیثیت افغان حکومت کو حاصل ہے، طالبان کو نہیں: صدر اشرف غنی

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ  عالمی برادری طالبان کو نہیں بلکہ حکومت افغانستان کو ہی اس ملک کی قانونی حکومت تسلیم کرتی ہے۔

ویڈیو لنک کے ذریعے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت ہی افغانستان کی قانونی حکومت ہے اور طالبان کی (نام نہاد) اسلامی حکومت کو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رو سے صرف افغانستان کی حکومت کو قانونی حیثیت حاصل ہے طالبان کی حکومت کو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس بات پر متفق ہے کہ افغانستان میں کسی سیاسی راہ حل تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔

صدر اشرف غنی نے افغانستان میں قیام امن کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جاری کردہ قراردادوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کے خاتمے کے تعلق سے اقوام متحدہ کی جانب سے افغان عوام کی حمایت ان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری نہیں چاہتی کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کے اڈے میں تبدیل ہو جائے۔

صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افغانستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کر رہا ہے۔

دوسری جانب کابل میں ایوان صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں امن مذاکرات کے بارے میں صدر اشرف غنی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم دوحہ میں جاری امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی پابند ہے۔

ادھر افغانستان کی اعلی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے دوحہ مذاکرات میں تعطل جلد ختم ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیمیں تعطل ختم کرنے کے قریب پہنچ گئی ہیں۔

درایں اثنا اطلاعات ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور ان کی ٹیم نے دوحہ میں طالبان کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر اور طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مولوی عبد الکریم سے ملاقات کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان کے وزیر امن سادات منصور نادری سے بھی ملاقات اور گفتگو کی ہے۔

حکومت افغانستان اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بارہ ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوئے تھے تاہم فریقین کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے اور مذہبی معاملات کی تشریح کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کے باعث تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔

امریکہ اور بعض مغربی ملکوں کی مداخلت کو افغان امن مذاکرات میں تعطل کی اہم وجہ قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

ٹیگس