Aug ۲۱, ۲۰۱۷ ۱۵:۲۵ Asia/Tehran
  • اٹلی اور یونان کو دہشت گردانہ حملوں کا خدشہ

اٹلی اور یونان کی حکومتوں نے یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح اپنے اپنے ملک میں دہشت گردانہ حملوں کا امکان ظاہر کیا ہے۔

اٹلی کے وزیر اعظم پاؤلو جینٹیلونی نے اپنے ملک میں ممکنہ دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں سخت تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹلی سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک خود کو دہشت گردی کے خطرات کے مقابلے میں محفوظ تصور نہیں کرسکتا۔
یونان کے پبلک سیکورٹی کے وزیر نیکوس ٹوسکاس نے بھی کہا ہے کہ یونان میں انتہا پسندانہ حلموں کےامکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ مشرق وسطی کے آشوب زدہ علاقے میں امن و استحکام کے قیام کے بغیر دہشت گردی کے بیخ کنی ممکن نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے شمال مشرقی اسپین کے علاقے کیٹالونیا میں ہونے والے دو دہشت گردانہ حملوں میں چودہ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے، دہشت گرد گروہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ اور سیکورٹی خدشات کا معاملہ یورپی ملکوں کی سب سے بڑی مشکل میں تبدیل ہوگیا ہے۔
مبصرین کے مطابق جس وقت شام اور عراق میں تکفیری دہشت گردی جڑ پکڑ رہی تھی تو یورپی ممالک کی اس کی تقویت میں جٹے ہوئے تھے۔
یورپی ممالک اسلحہ کی فراہمی کے ذریعے، فوجی لحاظ سے دہشت گردوں کو شامی فوج پر برتری دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان ممالک نے داعش میں شمولیت کی غرض سے جانے والوں کے لیے  اپنی سرحدوں کو بھی کھلا چھوڑ دیا تھا تاکہ انتہا پسند عناصر ایک جانب یورپ سے باہر نکل جائیں اور دوسرے صدر بشار اسد کے محالفین کا مسلح محاذ مضبوط ہوسکے۔
لیکن مشرق وسطی میں داعش کی پے در پے شکست کے بعد یورپی عناصر پہلے سے بھی زیادہ شدت پسندانہ نظریات اور دہشت گردی کی تربیت حاصل کرکے بتدریج اپنے اپنے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ یورپ میں داعش کے زیادہ تر حملے انفرادی اور غیر منظم طور پر کیے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یورپی انٹیلی جینس اداروں کے لیے ان کا پتہ لگانا آسان نہیں ہے۔
علاوہ ازیں دہشت گرد عناصر لوگوں پر حملے کے لیے چاقو اور گاڑیوں جیسے بنیادی وسائل سے استفادہ کر رہے ہیں۔
مجموعی طور پر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دہشت گردی اور سیکورٹی کا مسئلہ یورپی ملکوں کی اہم ترین مشکل میں تبدیل ہوگیا ہے اور روز بروز پیچیدہ شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔

ٹیگس