Jan ۲۰, ۲۰۱۸ ۱۸:۴۷ Asia/Tehran
  • امریکہ کی نئی اسٹریٹیجی میں فرسودہ دعؤوں کا اعادہ

امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے نئی جنگی اسٹریٹیجی کا اعلان کیا ہے جس میں چھے بار ایران کا نام لیا گیا ہے۔

نیشنل ڈیفینس اسٹریٹیجی برائے دو ہزار اٹھارہ کے نام سے امریکہ کے وزیر جنگ جیمز میٹس کی اعلان کردہ نئی جنگی اسٹریٹیجی کے گیارہ صفحات پر مشتمل خلاصے میں دو ہزار سترہ کی جنگی اسٹریٹجی کی مانند نئی امریکی اسٹریٹیجی میں بھی دو ملکوں، روس اور چین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ جبکہ ایران اور شمالی کوریا کو امریکہ کے لیے علاقائی چیلنج قرار دیا گیا ہے۔
امریکہ کی نئی جنگی اسٹریٹیجی میں چھے بار ایران کا نام لیکر یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ایران، مشرق وسطی میں ہمسایہ ملکوں سے رقابت کے ساتھ ساتھ، خطے میں اپنے اثرو رسوخ میں اضافے، عدم استحکام پھیلانے، پراکسی نیٹ ورک کے قیام اور میزائیل پروگرام کے ذریعے  خطے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ کی نئی جنگی اسٹریٹیجی میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ واشنگٹن شمالی کوریا اور ایران جیسے ملکوں پر قابو پانے اور امریکہ کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کی روک تھام اور عراق و افغانستان میں اپنی کارگردی کو محفوظ رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
امریکہ کی نئی جنگی اسٹریٹیجی میں عراق اور افغانستان میں کامیابیوں کو محفوظ رکھنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب عراق اور افغانستان میں امریکہ کی جارحیت کا نتیجہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے قیام اور دونوں ملکوں کے وسائل کی تباہی اور سیکورٹی کے کمزرو ہو جانے کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے۔
امریکہ نے دہشتگری اور منشیات کے خلاف جنگ کے نام پر جب سے افغانستان پر حملہ کیا ہے یہ ملک مزید بدامنی کا شکار ہو گیا ہے جبکہ منشیات کی پیداوار میں بھی نو گنا اضافہ ہوا ہے۔
عراق میں بھی اگر عوامی رضاکار گروہ اور ایران کی مشاورت نہ ہوتی تو خانہ جنگی اور داعش کی وجہ سے اس کا شیرازہ کبھی کا بکھر چکا ہوتا۔
امریکہ کی نئی جنگی اسٹریٹیجی میں خطے میں عدم استحکام اور دہشت گردی کی حمایت کا الزام، ایران پر ایسے وقت میں لگایا گیا ہے جب امریکہ کے فراہم کردہ ممنوعہ ہتھیاروں سے یمن میں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔
یمن میں امریکہ اور سعودی عرب کے جنگی جرائم کے علاوہ دہشت گردی کے بارے میں امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے شام اور خطے میں بعض دہشت گرد گروہ مسلسل سرگرم ہیں۔
اس دستاویز میں جو سب سے اہم نکتہ دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ اپنے اتحادی اور شریک ملکوں میں واشنگٹن سے وابستہ سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی نظام مسلط کیا جائے تاکہ اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ، خطے کے ان ملکوں اور طاقتوں کو سیاسی، اقتصادی اور فوجی دباؤ میں اپنا مطیع بنایا جائے جو امریکی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔
امریکہ کی نئی جنگی اسٹریٹیجی میں کھلے بندوں، ترقیاتی بینکوں کے ذریعے مختلف ملکوں میں اقتصادی اور سیاسی اثرو رسوخ میں اضافے کی بات کہی گئی ہے۔ حکومت امریکہ اس طرح مختلف ملکوں میں واشنگٹن کے ساتھ وابستگی میں اضافے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

ٹیگس