Mar ۱۲, ۲۰۱۸ ۱۴:۳۹ Asia/Tehran
  • جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ

جرمن پولیس نے مسجد کو آگ لگائے جانے کے واقعے کو دانستہ اقدام قرار دے دیا۔

جرمن پولیس کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دارالحکومت برلن کے علاقے رینکنڈرف میں ایک مسجد کو نذر آتش کردیا گیا اور اس واقعے تین انتہا پسند نوجوان ملوث رہے ہیں۔
واقعے میں مسجد کا اندرونی حصہ مکمل طور پر جل کے راکھ ہوگیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ واقعے کے بارے میں مزید تحقیقات کر رہی ہے۔
جرمنی میں اسلام دشمن اقدامات کے تحت دس مارچ کو بھی لافن شہرکی ایک مسجد کو پیٹرول بم کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں مسجد میں آگ لگ گئی تھی۔
سن دو ہزار سترہ میں اور خاص طور سے یورپی ملکوں میں داعشی دہشت گردوں کے حملوں کے بعد سے، مغربی ملکوں میں اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنانہ اقدامات میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ جرمنی کے مسلمانوں کی دشواریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق سن دوہزار سترہ کے دوران مسلمانوں اور اسلامی اداروں پر نوسو پچاس حملے ریکارڈ کیے گئے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان حملوں میں تینتیس افراد زخمی ہوئے ہیں اور ساٹھ واقعات میں براہ راست مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب جرمن مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ ایمن مازک نے کہا ہے کہ جرمنی میں اسلام مخالف حملوں کی واقعات اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ اس ملک میں اسلام مخالف حملوں کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں لہذا زیادہ تر واقعات کی ابتدائی رپورٹ بھی درج نہیں ہوپاتی۔
اسلام کو جرمنی میں دوسرا مذہب تصور کیا جاتا ہے اور تقریبا پانچ اعشاریہ چار فی صد یعنی ساڑھے چار ملین کے قریب مسلمان جرمنی میں آباد ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جرمن حکام بھی مسلسل اسلام کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں۔
جرمنی کی انتہا پسند جماعت الٹرناتیو کے سربراہ بیورن ہوکے نے اپنے حالیہ اسلام مخالف بیان میں دعوی کیا تھا کہ اسلام کا یورپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کا مقابلہ کیے جانے کی ضرورت ہے اور اس دین کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
لیکن اسی دوران اطلاعات ہیں کہ مذکورہ انتہا پسند پارٹی کے ایک سینیئر عہدیدار آرتھر واگنر نے دین اسلام قبول کرلیا ہے جس سے جرمنی کے انتہا پسند اسلام مخالف دھڑوں کو زبردست دھچکہ لگا ہے۔

ٹیگس