Oct ۱۹, ۲۰۱۸ ۱۴:۱۵ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف پابندیوں کی امریکی پالیسی ایک بڑی غلطی ہے، پوتن

روسی صدر نے ایران اور دیگر ملکوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی امریکی پالیسیوں کو ایک بڑی غلطی قرار دیا ہے - روسی صدر نے اسی طرح مغرب کو خبردار کیا کہ روس پر کسی بھی طرح کے جوہری حملے کا بھرپور طریقے سے اور اسی انداز میں جواب دیا جائے گا۔

روسی صدر پوتن نے سوچی والدائی نامی پندرہویں کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روس ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں پہل نہیں کرے گا لیکن اگر اس کو یہ معلوم ہو گیا کہ اس پر جوہری حملہ ہوا ہے تو وہ محض دس سیکنڈ کے اندر حملہ کرنے والے ملک پر اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے جوابی حملہ کر دے گا-

پوتن نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ روس کی ایٹمی ڈاکٹرائن میں ایٹمی ہتھیاروں سے پیشگی حملہ کرنے کا کوئی منصبوبہ نہیں ہے- روسی صدر نے کہا کہ ماسکو نے انتہائی جدید ترین اور سوپر سونیک ہتھیار بنانے میں اپنے حریفوں پر سبقت اور برتری حاصل کر لی ہے اور اس میدان میں اس کے حوصلے بہت ہی بلند ہیں کیونکہ رقبے کے اعتبار سے روس، دنیا کے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے اور اس کے پاس وسیع پیمانے پر ہتھیار اور انسانی فوجی قوت موجود ہے-

انہوں نے ایران اور دیگر ملکوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پرمبنی امریکی پابندوں کو ایک بڑی غلطی قرار دیا اور کہا کہ یورپی ممالک بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر عمل کیا ہے بنابریں امریکی پابندیاں ایک بڑی غلطی ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی منڈیوں میں ڈالر پر اعتماد آہستہ آہستہ اٹھتا جا رہا ہے-

ان کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک ایران کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں اور روس بھی اس وقت ایران اور دیگر ملکوں کے ساتھ تجارت کرنے میں قومی کرنسی کا استعمال کرنے کی سوچ رہا ہے-

روسی صدر نے مشرق وسطی میں امریکا کی خودسرانہ پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف امریکی اقدامات دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشرق وسطی کے حل میں مدد نہیں دے گا اور یہ چیزیں مشرق وسطی کے لئے مسائل پیدا کریں گی-

پوتن کا کہنا تھا کہ شام میں امن بحال ہو رہا ہے اور اگر کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ دیگر ممالک شام سے نکل جائیں تو انہیں چاہئے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی حمایت بند کر دیں-

ان کا کہنا تھا کہ داعش نے ان علاقوں میں امریکا کے کنٹرول میں اپنی سرگرمیوں کا دائرہ پھیلا دیا ہے-

والدائی کانفرنس جمعرات کو سوچی میں شروع ہوئی ہے جس میں دنیا کے ایک سو تیسں ملکوں کے حکام مندوبین اور ماہرین شریک ہیں-