Nov ۱۲, ۲۰۱۸ ۱۹:۲۸ Asia/Tehran
  • یمن کی تباہ کن جنگ میں امریکی مداخلت کا اعتراف

امریکا کے تیس سابق اعلی حکومتی عہدیداروں نے یمن کی جنگ میں واشنگٹن کی مداخلت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے امریکی مداخلت کو فوری طور پر بند، جنگ کے خاتمے اور سعودی اتحاد کو ہرطرح کی مدد روک دئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

سابق امریکی صدر باراک اوباما کی حکومت کے دور کے تیس اعلی حکومتی عہدیداروں نے موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کو ایک خط ارسال کرکے یمن میں فوری جنگ بندی اور سعودی اتحاد کو ہرطرح کی مدد روک دئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس خط پر اوباما انتظامیہ کے سابق عہدیداروں منجملہ قومی سلامتی کے امور کی سابق مشیر سوزان رائیس، سی آئی اے کے سابق سربراہ جان برینن، سابق نائب وزیرخارجہ امریکی ونڈی شرمن اور وائٹ ہاؤس کی سینیئر عہدیدار لیزا موناکو نے بھی دستخط کئے ہیں۔

خط میں امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے لئے اپنی حمایت تیز کردی ہے اور حتی وہ بندشیں بھی جو ہمارے دور میں عائد کی گئی تھیں ختم کردی گئی ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یمن کی اس تباہ کن جنگ میں امریکی رول کو ختم کیا جائے۔

ٹرمپ کے نام یہ خط ایک ایسے وقت ارسال کیا گیا ہے جب امریکی وزیرخارجہ نے اس سے پہلے کہا تھا کہ یمن کی جنگ امریکا کی قومی سلامتی کی ترجیحات میں شامل ہے۔

امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی ہتھیاروں کی ضرورت ہے اور امریکا کے جنگی طیاروں کو اڑانے کی ٹریننگ  کے لئے ان دونوں ملکوں کو امریکی ماہرین کی مدد کی ضرورت ہے۔

امریکی وزیرخارجہ اور دیگر امریکی حکام کے ان ہی خیالات کی بنیاد پر واشنگٹن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھاری ہتھیار فروخت کرکے بے انتہا منافع حاصل کر رہا ہے

 اس دوران برطانوی وزیرخارجہ جرمی ہنٹ نے یمن کی جنگ کو ختم اور جمالی خاشقجی قتل کیس کی تحقیقات میں تعاون پربات چیت کے لئے پیرکو سعودی عرب روانہ ہونے سے قبل اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یمن میں انسانی جانوں کا ضیاع اتناہ زیادہ ہے کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور اس کے علاوہ اس جنگ کے نتیجے میں دسیوں لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ قحط اور وبائی امراض نے لاکھوں یمنی باشندوں کی جان کو خطرے سے دوچار کردیا ہے اس لئے اب اس بحران کو حل کو کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے لئے سیاسی مذاکرات شروع ہوں اور صلح کے قیام کے لئے کوششیں کی جائیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ برطانیہ بھی امریکا کی طرح جنگ یمن میں سعودی عرب کا اہم ترین حامی رہا ہے اوراس نے بھی سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فروخت کئے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یورپ اورامریکا نے عالمی رائے عامہ کے دباؤ میں آکر یمن پر سعودی اتحاد کے حملوں کو بند کرانے کا مطالبہ کافی  تاخیر سے کیا ہے جبکہ ان ملکوں نے جنگ یمن میں گذشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران سعودی عرب کی ہمیشہ کھل کر حمایت کی ہے۔

ٹیگس