Nov ۱۸, ۲۰۱۸ ۱۷:۴۳ Asia/Tehran
  • خاشقجی قتل کیس اور امریکی حکام کی تضاد بیانیاں

مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد بن سلمان کے کردار کے حوالے سے خود امریکی حکام میں اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ ایک جانب سی آئی اے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم سے انجام پایا ہے تو دوسری جانب صدر ٹرمپ بن سلمان کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ جہاں سعودی عرب کے ولی عہد اور ڈی فیکٹو کنگ بن سلمان کے لیے وبال جان بن گیا ہے وہیں امریکی حکام اس معاملے پر مسلسل قلابازیاں کھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سعودی عرب کے اہم ترین اتحادی کی حثیت سے امریکہ میں جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے زبردست ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکی ایوان نمائندگان کے متعدد ارکان کی جانب سے ریاض حکومت کے خلاف تادیبی کاروائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
اس دباؤ کے نتیجے میں امریکی محکمہ خزانہ نے جمال خاشقجی قتل میں ملوث سترہ افراد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جو بظاہر نمائشی اقدام معلوم ہوتا ہے جس کا مقصد اندرونی رائے عامہ کے دباؤ کو کم کرنا ہے۔
حالانکہ وائٹ ہاؤس بدستور اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ جمال خاشقجی قتل کیس میں سعودی عرب کے ڈیفیکٹو کنگ اور ولی عہد کے کردار کو قبول کرنے سے گریز اور بن سلمان کی چاپلوسی کے ذریعے واشنگٹن ریاض تعلقات کے فروغ کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
سی آئی اے کی جانب سے اس اعلان کے باوجود کہ وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم بن سلمان نے دیا تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں اس کیس کے حوالے سے سی آئی کی تحقیقاتی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر جنگ نے ٹرمپ کے برخلاف موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم اعلی سعودی عہدیدار نے دیا تھا۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ یہ رپورٹیں کہ حکومت امریکہ جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچ گئی ہے، بہت زیادہ قابل اعتبار نہیں ہیں۔
امریکی حکام کی یہ تضاد بیانیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب سی آئی اے کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ترکی میں سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کو قتل کرنے کا حکم سعودی ولی عہد بن سلمان دیا تھا۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے ٹرمپ کا موقف، ان کے لیے امریکہ سعودی عرب تعلقات کی بے پناہ اہمیت کی غمازی کرتا ہے جس سے انہوں نے بہت زیادہ اقتصادی اور تجارتی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد اپنے غیر ملکی دورے کے لیے سب سے پہلے سعودی عرب کا انتخاب کیا تھا جہاں انہوں نے ایک سو دس ارب ڈالر مالیت کے اسلحے کی فروخت کے معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔

اس دورے میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی مجموعی مالیت چار سو پچاس ارب ڈالر بتائی جاتی ہے جس سے امریکہ میں روزگار کے ہزاروں مواقع میسر آئیں گے۔
بن سلمان کو بے گناہ ظاہر کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کو کانگریس سمیت اندرونی حلقوں کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ امریکہ کو سعوی عرب کی بے رحم استبدادی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پر مکمل نظر ثانی کرنا ہو گی اور یہ کام جنگ یمن میں سعودی حکومت کی حمایت کے خاتمے سے شروع ہونا چاہیے۔

ٹیگس