Nov ۲۰, ۲۰۱۸ ۱۵:۳۶ Asia/Tehran
  • خاشقجی کے قتل پر آل سعود حکومت پر بڑھتا ہوا عالمی دباؤ

ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تصدیق ہو جانے کے بعد سعودی عرب کی حکومت پر عالمی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور دنیا کے بیشتر ملکوں نے ریاض کی جانب سے پیش کی جانے والی توجیہ کو ناکافی اور غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔

جرمن وزارت خزانہ نے ایک بیان جاری کر کے اعلان کیا ہے کہ مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی حکومت کا ہاتھ ہونے کے بعد جرمی نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کر دی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کابینہ میں کیا گیا ہے۔

دوسری جانب جرمنی کے وزیر خارجہ نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودی عرب کے اٹھارہ اہلکاروں پر جرمنی میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی۔

 جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے برسلز میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں ملوث 18 سعودی حکام پر جرمنی اور دیگر یورپی ممالک  میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جرمن خفیہ اداروں کے مطابق سعودی عرب کے 18 عہدیدار استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانہ میں خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ہیں۔

جرمن حکومت نے اس سے قبل سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات صاف اور شفاف طریقہ سے انجام دے۔

ذرائع کے مطابق خاشقجی کے قتل میں سعودی عرب کے ولیعہد بن سلمان براہ راست ملوث ہیں۔ عرب ذرائع کے مطابق خاشقجی کو بن سلمان کے حکم پر2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانہ میں بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا اور امریکی سی آئی اے اور امریکی میڈیا کی جانب سے خاشقجی کے قتل میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے براہ راست ملوث ہونے کے ثبوت اور شواہد پیش کئے جانے کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ انھیں اس قتل سے بری الذمہ قرار دینے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔

دریں اثنا جرمن حکومت کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند رکھے جانے کا فیصلہ بدستور باقی ہے۔

ادھر فرانسیسی وزیر خارجہ لے دریان نے بھی جرمنی کی جانب سے سعودی عرب کے اٹھارہ اہلکاروں پر پابندی عائد کئے جانے کے اعلان کے بعد کہا ہے کہ اس سلسلے میں ان کا ملک بھی جلد ہی اپنے فیصلے کا اعلان کرے گا۔