Mar ۲۱, ۲۰۱۹ ۱۱:۰۲ Asia/Tehran
  • نیوزی لینڈ کا حملہ اور سعودی کردار

نیوزی لینڈ میں دو مسجدوں پر دہشت گردانہ حملوں میں 50 سے زائد نمازیوں کی شہادت کے بعد ویٹیکن کے پوپ کے منہ سے دو لفظ نکلے، ہمارے مسلمان بھائی، ان دو الفاظ سے ظاہر ہو گیا کہ انہیں دہشت گردانہ واقعے سے کتنا افسوس ہوا اور متاثرین سے انہیں کتنی ہمدردی ہے۔

پوپ فرانسس نے شہید نمازیوں کے لئے دعا کی اپیل کی تاہم دوسری جانب سعودی عرب نے اس دلسوز واقعے پر جو حکومتی رد عمل دیا اسے اس ملک کا مناسب رد عمل ہرگز نہیں کہا جا سکتا جہاں سے مذہب اسلام ساری دنیا میں پھیلا اور جہاں ہر سال دسیوں لاکھ مسلمان حج کے لئے جاتے ہیں ۔

نیوزی لینڈ کے واقعے پر سعودی فرمانروا سلمان بن عبد العزیز نے ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے حملے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا، انہوں نے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور ان کے ملک سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی اور نفرت پر لگام لگائیں ۔  

تاہم وہیں کعبے کے امام اور حرمین شریفین کے امور کے عہدیدار عبد الرحمن سدیس نے بڑا بے تکا بیان دیا۔ انہوں نے وہی بیان دہرا دیا جو تین سال پہلے انہوں نے سعودی عرب میں ہونے والے مجرمانہ واقعات پر دیا تھا۔

مسجد الحرام کے سابق امام عادل الکلبانی تو اس سے بھی آگے نکل گئے انہوں نے کہا کہ یہ سوچ کر دکھ کم ہو جاتا ہے کہ قاتل مسلمان نہيں ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں نمازی مسلمان، مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں ۔

الکلبانی کے اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا پر کافی ہنگامہ مچ گیا۔ تین گھنٹے کے اندر دس ہزار جواب آگئے جن میں صارفین نے کہا کہ کلبانی نے تمام مسلمانوں پر حملہ کیا ہے۔ سب نے سوال کیا کہ جب نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم آرڈرن خود مان رہی ہیں کہ یہ نسل پرستی اور تعصب کا مسئلہ ہے تو الکبانی اسے کسی دوسری جانب موڑنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں ۔

سعودی عرب کو اسلامی امور میں متعدد بار جھٹکے لگ چکے ہيں ۔ 1979 میں العتیبی تحریک نے اس ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور سعودی حکومت وہابی دھڑے سے اپنی قدیمی سازش کو نئے سرے سے مضبوط کرنے پر مجبور ہوگئی تھی ۔ سعودی حکومت کے اندر وہابی نظریات پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ۔

دوسرا جھٹکا تب لگا جب 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ حملہ کرنے والے 19 حملہ آوروں میں 15 سعودی عرب کے شہری تھے ۔ دو اماراتی، ایک مصری اور ایک لبنانی تھا۔ ان حملہ آوروں کے سعودی شہزادوں سے رابطے قرار دیئے جاتے ہیں ۔

اس حالت کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کی موجودہ حکومت نے تبدیلی کا مشن شروع کیا ۔ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت مل گئی تاہم دوسری جانب سماجی کارکنوں کی گرفتاری، اذیتیں اور ان کو پریشان کرنے کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔

اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب اصلاح اور تبدیلی کے نام پر صرف دکھاوا کر رہا ہے۔ سعودی قیادت حج کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بجائے سیاحت کے بارے میں غور و فکر کر رہی ہے، نئی ایجادات کے بجائے تفریح پر پوری توجہ مرکوز کر رہی ہے، اقتصاد کو مضبوط کرنے کے بجائے آرامکو کو فروخت کرنے کے بارے میں غور و فکر کر رہی ہے ۔ اس طرح دنیا میں اس کی اہمیت اور احترام ختم ہوتا جا رہا ہے۔

بشکریہ

القدس العربی

ٹیگس