Mar ۲۶, ۲۰۱۹ ۱۴:۴۱ Asia/Tehran
  • برطانوی پارلیمنٹ نے دیا وزیراعظم ٹریسا مے کو ایک اور جھٹکا

برطانوی پارلیمنٹ نے وزیراعظم ٹریسا مے کو ایک اور جھٹکا دیا ہے اور بریگزٹ کے معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔

برطانوی پارلیمنٹ میں پیر کی شب ایک بل پر رائے شماری کرائی گئی جس کے تحت بریگزٹ کے معاملات حکومت سے پارلیمنٹ کو تفویض کردیئے گئے۔ایوان میں ہونے والی رائے شماری میں تین سو انتیس ارکان نے اس بل کی حمایت کی جبکہ تین سو ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیئے۔
حمکراں جماعت کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے تیس ارکان نے بھی بریگزٹ کے معاملات کو حکومت سے پارلیمنٹ کو تفویض کیے جانے کی بل کی حمایت کی ہے۔
اس بل کی منظوری کو وزیراعظم ٹریسا مے کی ناتواں حکومت کی پیکر پر کاری ضرب قرار دیا جا رہا ہے جو بریگزٹ کے معاملے پر پچھلے چند ماہ کے دوران اپنی ساکھ پہلے ہی برباد کر چکی ہے اور اس کے جواز پر سوالیہ نشانہ لگ گئے ہیں۔
ادھر کابینہ کے تین نائب وزرا نے بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو کر حکومت کی ناکامی اور شکست کی کڑیاں مکمل کر دی ہیں۔ نائـب وزیر تجارت رچرڈ ہیرنگٹن، نائب وزیرصحت اسٹیو برائن اور نائب وزیر خارجہ ایلسٹر برٹ، ایسے برطانوی عہدیدار ہیں جنہوں نے وزیراعظم ٹریسا مے سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے استفے کا اعلان کر دیا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ اب تک دوبار حکومت کے پیش کردہ بریگزٹ معاہدے کو کثرت رائے سے مسترد کر چکی ہے جس کی وجہ سے انتیس مارچ کی قانونی مہلت کے اندر، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔
تازہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یورپی یونین نے گزشتہ جمعرات کو بریگزٹ کی مہلت میں محدود مدت کے اضافے سے متعلق وزیراعظم ٹریسا مئے درخواست کو مشروط طور پر منظور کر لیا تھا اور حکومت برطانیہ کو مہلت دی تھی کہ وہ اس ہفتے تیسری بار بریگزٹ معاہدے کو پارلیمینٹ میں رائے شماری کے لیے پیش کرے۔
اگر برطانوی اراکین پارلیمینٹ نے حکومت کے تیار کردہ بریگزٹ معاہدے کی منظوری نہ دی تو یورپی یونین حکومت برطانیہ کو صرف دو ہفتے کی مزید مہلت دے گی جس کے دوران لندن کو بریگزٹ کی نئی تجاویز پیش کرنا ہوں گی اور بصورت دیگر بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے نکلنا پڑے گا۔  
برطانوی وزیر اعظم کے دفتر نے منگل کے روز اس بات کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا کہ بریگزٹ معاملے نے ملک کو بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
برطانیہ کے عوام نے تئیس مارچ دو ہزار سولہ کو کرائے جانے والے استصواب رائے کے ذریعے یورپی یونین سے علیحدگی کی منظوری دی تھی تاہم حالیہ دنوں کے دوران پچاس لاکھ برطانوی شہریوں نے آن لائن پٹیشن کے ذریعے برطانیہ کے یورپی یونین میں باقی رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ دنوں دس لاکھ لوگوں نے بریگزٹ کے خلاف لندن کی سڑکوں پر مارچ بھی کیا تھا۔