May ۱۷, ۲۰۱۹ ۰۵:۰۸ Asia/Tehran
  • بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے ... مقالہ

شاید اسے یورپی یونین اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ میں پہلی بار رونما ہونے والا واقعہ کہا جا سکتا ہے۔

برسلز میں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس چل رہا تھا، اجلاس کا موضوع تھا، ایران۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو اس اجلاس کے بارے میں سن کر اتنے بے قرار ہوئے کہ اپنے دورہ ماسکو کو معطل کرکے برسلز پہنچ گئے تاکہ وہاں یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شریک ہوکر اور ان کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر، ایران کے مسئلے میں یورپ – امریکا اتحاد کا اعلان کریں تاہم ان کی یہ خواہش ان کے دل میں ہی رہ گئی ۔

برسلز میں یورپی وزرائے خارجہ نے پہلے تو اپنی مشغولیت کی بات کہہ کر پومپئو سے ملاقات سے ہی انکار کر دیا اور جب ملاقات ہوئی تو ایران کے بارے میں امریکا کی کشیدگی پھیلانے والی پالیسی کی خوب مخالفت کی اور ساتھ میں فوٹو کھنچوانے کے امریکی وزیر خارجہ کے مطالبے کو بھی قبول نہیں کیا ۔

یہ سب کجھ اس لئے ہوا کیونکہ یورپ کی سمجھ میں آ چکا ہے کہ مشرق وسطی میں جو بھی ہوگا، اس کے خطرناک نتائج انہیں ہی بھگتنا ہوں گے اور بحران کا سبب امریکا، علاقے سے دور بیٹھا مزے کرے گا ۔

سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اگر اس علاقے میں جنگ ہوئی تو علاقائی ممالک کو نقصان ہوگا ہی، تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک کے اقتصادی مراکز تباہ ہو جائیں گے اور تیل کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں گی جس سے یورپی اور مشرقی ایشیائی ممالک کا اقتصاد تباہ ہو جائے گا ۔ 

کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا کا ہدف بھی یہی ہے اور وہ اس طرح سے دنیا کے ان ممالک کے اقتصاد کو تباہ کرنا چاہتا ہے جو مستقبل میں اس سے مقابلہ آرائی کر سکتے ہیں ۔

اس علاقے میں جنگ کا مسئلہ یورپ کے لئے صرف توانائی تک ہی محدود نہیں ہے ۔ یورپ کو پتا ہے کہ علاقے میں ہر نئے بحران کی صورت میں مہاجرین کا گروہ ان کی طرف بڑھے گا ۔

یورپ کو محسوس ہوتا تھا کہ ایران کبھی بھی ایٹمی معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگا اور وہ ہمیشہ دھمکی دیتے تھے کہ اگر ایران معاہدے سے باہر نکلا تو وہ امریکا کے ساتھ ہو جائیں گے لیکن امریکا کے دستبردارہونے کے ایک سال بعد جب ایران نے کچھ شقوں پر عمل روک دیا تو یورپ کی سمجھ میں آ گیا کہ اب اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو ایران نہ صرف یہ کہ ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا بلکہ وہ این پی ٹی سے بھی نکل سکتا ہے ۔

یورپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ حالانکہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنانا چاہتا لیکن بنانے کی ٹکنالوجی اس کے پاس ہے اور اگر اس پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جائے گا تو ہو سکتا ہے وہ اچانک کوئی بڑا فیصلہ کر لے اور ایسی جہت میں نکل جائے جو سب کے لئے پشیمانی کا سبب بن جائے ۔

بشکریہ

اسپوتنک نیوز ایجنسی

ٹیگس