Jul ۱۲, ۲۰۱۹ ۱۵:۳۹ Asia/Tehran
  • ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا امریکی دعوی

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اپنے اتحادیوں سے ایران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کم کرانے کی درخواست کی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مورگن اروٹیگس نے جمعرات کی شب صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ذریعے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لائے اور ہمارے اتحادیوں اور ان کے مفادات پر حملے نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایرانیوں کے ساتھ غیر مشروط ملاقات کے لیے تیار ہیں بنا برایں ہم بقول ان کے سفارتی راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔امریکہ نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے متعدد اشتعال انگیز اقدامات انجام دئے  جن میں ایران کی فوج کے اہم رکن سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی فورس کو دہشت گرد گروہ قرار دینا نیز خطے میں اپنے بحری بیڑوں اور بمبار طیاروں کی تعیناتی وغیرہ شامل ہیں۔تازہ ترین اشتعال انگیزی کے تحت امریکہ کا ایک ڈرون طیارہ بیس جون کو ایران کی سمندری حدود میں داخل ہوا تھا جو جنوبی ایران کے صوبے ہرمزگان کے علاقے کوہ مبارک قریب کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ایئر ڈیفینس یونٹ کا نشانہ بن کر تباہ ہوگیا۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے مذکورہ نیوز کانفرنس میں اس بات کا دعوی کرنے کے بعد کہ واشنگٹن نے تہران سے کشیدگی میں کمی کی درخواست کی ہے، میڈیا میں آنے والے ان خبروں کو رد نہیں کیا کہ ایران سے تیل کی خریداری کے باعث چین کے خلاف امریکی پابندیوں کا امکان پایا جاتا ہے۔دوسری جانب امریکی تجزیہ نگار اور سی این این کے پروگرام جی پی ایس کے اینکر فرید زکریا نے ٹرمپ انتظامیہ کے ایران مخالف اقدامات کو مغربی ایشیا میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافے اور واشنگٹن کے اتحادیوں میں اختلافات کا باعث قرار دیا ہے۔روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھے گئے اپنے تازہ مقالے میں فرید زکریا کا کہنا ہے کہ ایران کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضاد کی کھلی تصویر اس وقت ہمارے سامنے آئی جب گزشتہ ہفتے وا‏ئٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان میں یہ کہا گیا کہ بلاشبہہ ایران ایٹمی معاہدے سے پہلے سے  بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔امریکی تجزیہ نگار نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے جو معاہدہ ابھی ہوا ہی نہیں اس کی پہلے سے خلاف ورزی کیسے ممکن ہے، لکھا ہے کہ یہ ٹرمپ انتظامیہ  کی  تضاد بیانیوں کا صرف ایک نمونہ ہے۔انہوں نے کہا کہ خود ٹرمپ نے ایسی ہی تضاد بیانی سے کام لیتے ہوئے پہلے کہا کہ ایران پر حملے کا پروگرام  روک دیا گیا ہے اور پھر یہ بیان دیا کہ ایران پر حملے کا پروگرام روکا نہیں بلکہ موخر کیا ہے۔فرید زکریا نے ٹرمپ انتظامیہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا میں امن کا راستہ ایران سے دشمنی نہیں کیونکہ اس سے نفرت اور دشمنی پھیلی گی اور خطہ مزید غیر مستحکم ہوگا، یہاں تک امریکہ مزید کئی عشروں تک اس دلدل میں پھنس کر رہ جائے گا۔