Jul ۱۵, ۲۰۱۹ ۱۹:۳۰ Asia/Tehran
  •  ایٹمی معاہدے کی نابودی کے امکان کی بابت یورپ کا اظہار تشویش

تین یورپی ملکوں جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ہمیشہ اس بات کا دعوی کیا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں لیکن اس کے باوجود یہ معاہدہ اس وقت اپنے انتہائی حساس دور سے گذر رہا ہے چنانچہ اس وقت یورپ کو ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے تعلق سے سخت چیلنجوں کا سامنا ہے۔

برطانیہ ، جرمنی اور فرانس نے ایک بار پھر خلیج فارس میں کشیدگی میں اضافے اور ایٹمی معاہدے کا شیرازہ بکھر جانے کے امکان پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے اور اس سلسلے میں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا ہے-

جرمن چانسلر انجیلا مرکل، فرانسیسی صدر امانوئل میکرون اور برطانوی وزیراعظم تھریسا مئے نے ایک مشترکہ بیان میں ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اپنے بعض وعدوں پر عمل درآمد کو روک دینے کے ایران کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکا کی علیحدگی اور اپنے بعض وعدوں پر عمل درآمد کو روک دینے کے بارے میں ایران کے دوسرے قدم سے ایٹمی معاہدہ اب نابودی کے دہانے پر پہنچ رہا ہے-

یورپی ملکوں کے ٹرائیکا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ معاہدے کے فریقوں کو چاہئے کہ ہر طرح کے فیصلے کے نتائج کا اندازہ لگانے کے لئے تیزی سے قدم اٹھائیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ وقت تدبیر، مذاکرات اور کشیدگی کم کرنے کا ہے- یورپی ٹرائیکا کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں جو حد معین کی گئی ہے اس سے زیادہ سطح تک افزودہ یورینیم کے ذخائر کو آگے لے جانے کے ایران کے اقدام سے علاقے کا استحکام متاثر ہو گا-

تینوں یورپی ملکوں کے سربراہوں نے ایران سے کہا ہے کہ وہ اپنے تازہ فیصلے پر نظر ثانی کرے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے کی حمایت کرتے ہیں بشرطیکہ ایران معاہدے کی شقوں کی پابندی کرے-

فرانس کے وزیر خارجہ لےدریان نے بھی ایٹمی معاہدے سے امریکا کی علیحدگی پر تنقید کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کے بعض وعدوں پر عمل درآمد کو روک دینے کے ایران کے اقدام کو ایک برے فیصلے کے خلاف برے ردعمل کا نام دیا ہے-

فرانسیسی وزیر خارجہ نے ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں اضافے اور دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تصادم کے امکان کے بارے میں نامہ نگاروں کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس وقت مغربی ایشیا کی صورتحال انتہائی خطرناک اور بحرانی ہے جو کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعات اور حادثات پر منتج ہو سکتی ہے-

فرانسیسی وزیر‍ خارجہ نے کہا کہ مغربی ایشیا میں کشیدگی میں اضافے کی صورتحال تصادم اور محاذ آرائی کی شکل اختیار کر سکتی ہے- ایسا لگتا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں یورپ کی نگاہ اور دیکھنے کا انداز غیر منصفانہ ہے-

یورپی ممالک ایٹمی معاہدے سے امریکا کی غیر قانونی علیحدگی، ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ عائد کر کے معاہدے کو سب و تاژ کرنے کی واشنگٹن کی کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فقط ایران سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے منطقی اور ذمہ دارانہ اقدامات یعنی اپنے وعدوں پر عمل درآمد کو معطل کرنے کے فیصلوں پر نظر ثانی کرے-

یہاں پر اہم سوال یہ ہے کہ اگر تہران یورپی ٹرائیکا کے مطالبہ کو مان لے تو کیا موجودہ صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی ہو سکتی ہے؟ کیا یورپ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کر کے خاص طور پر ایران کے ساتھ خصوصی مالیاتی سسٹم انسٹیکس کو آپریشنل بنا کر ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے منفی اثرات کو کم کرے-

حقیقت یہ ہے کہ یورپی ممالک عزم محکم اور باہمی تعاون کے ذریعے ایٹمی معاہدے کی حفاظت کرنے کے بجائے صرف ایٹمی معاہدے کی موجودہ صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے لئے بیان جاری کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں جبکہ وہ خلیج فارس میں امریکا کے اشتعال انگیز اقدامات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اس اہم علاقے میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔

البتہ یورپ کی اس طرح کی پالیسی کو ایران منفی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسی لئے ایران کے وزیر‍ خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے لئے یورپی ملکوں کا بیان کافی نہیں ہے-