Dec ۰۸, ۲۰۱۹ ۱۸:۴۳ Asia/Tehran
  • میڈیٹرین کانفرنس میں بھی امریکی صدر پر تنقید

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ فرسٹ کے نعرے کے تحت عالمی سطح پر خود سرانہ پالیسیوں اور دھونس جما کر بزعم خویش واشنگٹن کے ناجائز مفادات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں دنیا بھر میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

عالمی سطح پر امریکہ کی خودسرانہ پالیسیوں پرنکتہ چینی کا دائرہ میڈیٹرین ڈائیلاگ جیسی عالمی کانفرنس میں پہنچ گیا ہے اور اس کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل رہا۔

اٹلی کے دارالحکومت روم میں جاری میڈیٹرین ڈائیلاگ کانفرنس میں دنیا کے پچاس ملکوں کے اعلی عہدیدار اور سیاسی ماہرین شریک ہیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤ روف نے ایران کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایٹمی معاہدے کے حوالےسے عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے معاہدے سے خود سرانہ علیحدگی اختیار کرکے ایران کے خلاف پابندیاں پھر سے عائد کردی ہیں۔

سرگئی لاؤ روف کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی ناقابل قبول ہے کہ امریکہ ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے والے ملکوں پر بھی ایران کے خلاف پابندیوں کی پیروی کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔

ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے کی بارہا خلاف ورزی کے بعد آخر کار آٹھ مئی دوہزار اٹھارہ کو اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

اگلے مرحلے میں حکومت امریکہ نے ایران کے خلاف وسیع تر پابندیاں عائد کردیں اور ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کھل کر مخالفت کر رہی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ، ایٹمی معاہدے کے باقی ماندہ فریقوں حتی اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ کئی بار مذاکرات کرچکی ہے تاکہ انہیں ایٹمی معاہدے اور ایران کے خلاف واشنگٹن کی پالیسیوں کا ہمنوا بنایا جا سکے لیکن اسے تاحال ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

صورتحال سے نشاندھی ہوتی ہے کہ امریکی منشا کے برخلاف دیگر عالمی طاقتیں اب بھی ایٹمی معاہدے کو ایک موثر اور کار آمد معاہدہ تصور کرتی ہیں اور ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کی رپورٹوں کے مطابق ایران نے جامع ایٹمی معاہدے پر پوری طرح سے عمل کیا ہے۔

جرمنی، فرانس اور برطانیہ پرمشتمل یورپی ٹرائیکا بھی ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکی پالیسیوں کے حق میں نہیں ہے اور اس کا دعوی ہے کہ ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے اس نے بہت سے اقدامات انجام بھی دیئے ہیں۔ البتہ ایران کے لیے خصوصی مالیاتی نظام کے قیام سمیت یورپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کو بچانے انجام پانے والے اقدامات تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے ہیں، اس صورتحال نے ایران کو ردعمل ظاہر کرنے اور ایٹمی معاہدے پر یک طرفہ عملدرآمد کی سطح میں کمی پر مجبور کردیا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق یورپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے تحفظ کا معاملہ دشوار دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ یورپی ملکوں نے زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی عملی قدم تاحال نہیں اٹھایا بلکہ اس نے اپنی تجاویز کو بھی امریکہ کی رضامندی کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔

ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کا معاملہ اگرچہ یورپ کے لیے تشویش کا باعث بنا ہے تاہم تہران نے بھی واضح کردیا ہے کہ یورپ کی جانب سے زبانی جمع خرچ کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوجاتا اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی معاہدے پر عملدآمد کی سطح میں کمی کا مرحلہ وار سلسلہ جاری رکھے گا۔

روم میں میڈیٹرین ڈائیلاگ کانفرنس میں امریکہ کی خودسرانہ پالیسیوں اور خاص طور سے ایٹمی معاہدے کے بارے میں واشنگٹن کے اقدامات کے خلاف جو موقف اختیار کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ روس جیسے امریکہ کے حریف ممالک نہیں بلکہ اسپین  جیسے امریکہ کے اتحادی ممالک بھی ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ٹرمپ کی خود سرانہ اور دھونس ودھمکیوں کی پالیسیوں کو منفی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ٹیگس