Oct ۲۳, ۲۰۲۰ ۱۱:۴۵ Asia/Tehran
  • امریکہ، آخری انتخابی مباحثہ میں دونوں حریفوں نے ایک دوسرے کی خوب دھجیاں اڑائیں

ٹرمپ اور ری پبلکین امیدوار جوبائیڈن نے آخری صدارتی مباحثے میں ایک دوسرے پر قومی سلامتی سے متعلق الزامات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ روس اور چین سے پیسہ لینے کے بھی الزامات عائد کئے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ری پبلکن امیدوار جوبائیڈن کے مابین آخری صدارتی مباحثہ ریاست ٹینیسی کے شہر نیشول میں ہوا جس میں کورونا وبا، قومی سلامتی، امریکی خاندانوں، نسل پرستی، موسمیاتی تبدیلی اور قائدانہ صلاحیتوں کے موضوعات پر تند و تیز لہجوں میں الزامات کی بھر مار ہوئی۔

چونکہ پہلے مباحثے میں ٹرمپ اور بائیڈن نے ضابطہ اخلاق کی پابندی نہیں کی تھی اور بار بار ایک دوسرے کی بات کاٹتے رہے تھے، اس لئے دوسرے اور آخری مباحثے میں ہر ایک امیدوار کو باری باری  دو دو منٹ بولنے کا وقت دیا گیا تھا اور اس دوران مخالف امیدوار کا مائیکرو فون بند رہا۔

جوبائیڈن نے کہا کہ صدر ٹرمپ غیر ملکیوں سے ڈرنے والے شخص ہیں۔ اس پر ٹرمپ نے کہا کہ جو بائیڈن کو ساڑھے تین ملین ڈالر روس سے ملے۔ روس بائیڈن کو بہت رقم دے رہا ہے، ای میلز نے یہ ظاہر کر دیا ہے۔

اس کے جواب میں جو بائیڈن نے کہا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، چین سے اگر کسی نے رقم بنائی ہے تو وہ ٹرمپ ہیں۔

مباحثے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ 22 لاکھ امریکیوں کے کورونا سے ہلاک ہونے کا خدشہ تھا، چین سے آئے اس وائرس سے لڑنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ کورونا وبا اب دور ہوتی جارہی ہے، ویکسین اس سال کے آخر تک آجائے گی۔

صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے جواب میں کہا کہ 2 لاکھ 20 ہزار امریکی کورونا سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ مزید 2 لاکھ امریکیوں کے کورونا سے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے، اگر کوئی شخص ان اموات کا ذمہ دار ہے تو اسے صدر نہیں رہنا چاہیے۔

جو بائیڈن نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ کے پاس وبا کا مقابلہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، ہم ٹیسٹنگ بڑھائیں گے، میں اس وبا کو ختم کروں گا۔

جو بائیڈن نے کہا کہ ہم کورونا کے ساتھ جینا نہیں کورونا کے ساتھ مرنا سیکھ رہے ہیں، میرے نزدیک یہ موسم سرما انتہائی سیاہ ثابت ہوگا۔

مباحثے کے دوران امریکہ کے انتخابات میں روس، چین اور ایران کی مداخلت کے دعوے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ جوبائیڈن نے روس چین اور ایران کی امریکی انتخابات میں مداخلت سے متعلق انٹیلی جینس اداروں کے دعوے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ، انتخابات میں مداخلت کرنے والے ملکوں کو بقول ان کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

جو بائیڈن نے بھی دعوی کیا کہ روس جیسی بیرونی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ وہ امریکی انتخابات کے فاتح قرار پائیں کیونکہ انہیں معلوم ہے میرا رویہ ان کے ساتھ انتہائی سخت ہوگا۔ اس حوالے سے ٹرمپ کا دعوا تھا کہ ایران اور روس نہیں چاہتے کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہوں کیونکہ آج تک روس کےساتھ کسی بھی امریکی صدر نے اتنا سخت رویہ نہیں اپنایا جتنا بقول ان کے انہوں نے اپنا رکھا ہے۔

ٹرمپ نے آگے چل کر اپنے حریف جو بائیڈن پر حملہ کیا اور ان پر ماسکو کے میئر سے رشوت وصول کرنے کا الزام عائد کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ جو بائیڈن نے ماسکو کے مئیر سے ساڑھے تین ملین ڈالر کی رقم وصول کی ہے۔

نسل پرستی کا معاملہ بھی امریکہ کے صدارتی امیدواروں کے درمیان ہونے والے دوسرے اور آخری مباحثے کا اہم ترین موضوع رہا۔ ٹرمپ کے سخت ترین حریف جو بائیڈن نے امریکی سیاہ فاموں کے درمیان پائی جانے والی تشویش کا ذکر کیا اور ان کے ساتھ روا رکھنے جانے والے سلوک پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا انہیں ملک کے رنگین فام طبقات کے خوف اور پریشانی کا بخوبی ادراک ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نے دعوی کیا کہ وہ انتخابی معرکے میں اسی لیے حصہ لے رہے ہیں تاکہ ٹرمپ کی وحشتناک پالیسیوں کا گلا گھونٹ دیا جائے۔

بعد ازاں ٹرمپ نے جوبائیڈن پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملک کے سیاہ فاموں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ سیاہ فاموں کے لیے جتنے کام انہوں نے کیے ہیں آج تک کسی نے نہیں کیے۔

خیال رہے امریکہ میں صدارتی انتخابات تین نومبر کو ہوں گے ۔رائے عامہ کے زیادہ تر جائزوں میں اس بات کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے کہ ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کو ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان ہونے والے صدارتی انتخابات سخت تنازعے اور کشمکش کا شکار ہیں۔

اس بار ہونے والی انتخابی مہم کے دوران پُرجوش ماحول سے ہٹ کر بات کی جائے تو کئی ریاستوں میں رائے دہی کے طریقہ کار کو درپیش قانونی چیلنجز سے اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ کو سیاسی ہنگامہ آرائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اب جبکہ صدارتی انتخابات میں صرف 10 روز ہی رہ گئے ہیں، تو امریکہ اور دنیا بھر میں ان انتخابات کے حوالے سے یہ سوال پیدا ہوگیا کہ کیا انتخابات کا نتیجہ آنے کے بعد اقتدار کی منتقلی منظم انداز میں ہو پائے گی یا پھر معاملہ قانونی جنگوں اور تشدد تک پہونچ جائے گا۔

ٹیگس