Mar ۱۸, ۲۰۱۶ ۱۷:۵۲ Asia/Tehran
  • سعودی عرب میں پھانسیوں کی سزا پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری

سعودی عرب کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف جنوری کے مہینے میں سینتالیس (47) افراد کو پھانسی دی گئی ہے، جس میں سعودی عرب کے معروف شیعہ رہنما آیت اللہ شخ نمر باقر النمر بھی شامل ہیں۔

آل سعود کی ڈکٹیٹر حکومت عالمی اداروں کے انتباہات کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عرب میں پھانسیوں کی سزا پر عمل درآمد کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے جمعرات کو ملک کے جنوبی علاقے عسیر میں مزید دو افراد کو پھانسی دینے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب میں رواں سال کے پہلے تین ماہ میں  پچھتّر (75) افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف جنوری کے مہینے میں سینتالیس (47) افراد کو پھانسی دی گئی ہے، جس میں سعودی عرب کے معروف شیعہ رہنما آیت اللہ شخ نمر باقر النمر بھی شامل ہیں۔
ان کو ملک میں امن و امان کو نقصان پہنچانے کے بہانے پھانسی دی گئی ہے، شیخ باقر النمر کے بھتیجے علی النمر بھی ان نوجوانوں مں شامل ہیں جنہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
علی النمر کو فروری دو ہزار بارہ میں گرفتار کیا گياتھا، اس وقت ان کی عمر مشکل سے سترہ سال تھی، اس نوجوان کو مئی دو  ہزار چودہ میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے پھانسی کی سزا دینے پر اصرار اور اس میں تسلسل ایسے عالم میں جاری ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے سیاسی کارکنوں کو پھانسی دینے کے فیصلوں پر بارہا اعتراض کیا ہے اور اسے غیر منصفانہ اور عالمی قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔
عالمی اداروں کی رائے کے مطابق سیاسی کارکنوں کو پھانسی کی سزا دے کر سعودی حکومت اپنے مخالفین کی آواز کو دبانا چاہتی ہے اور یہ پالیسی نہ صرف ہولناک بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔
اسی حوالے سے ایمینسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق کے اکتیسویں اجلاس میں اپنے ایک اعلامیہ میں سعودی عرب کے ان اقدامات پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اس ملک سے کہا ہے کہ وہ ان اعتراضات کا جواب دے۔
اس اعلامیہ میں مزید آیا ہے کہ سعودی عرب گذشتہ سال سے انسانی حقوق کونسل کا رکن بنا ہے اور اس وقت سے لیکر اب تک مسلسل اور منظم انداز سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
ایمینسٹی انٹرنیشنل کے اس بیان کے مطابق سعودی عرب نے دھشت گردی سے مقابلے کے نام پر قانون سازی کر کے تمام پر امن مظاہروں اور احتجاجات کو بھی دھشت گردی کے زمرے میں لاکر اپنے مخالفین اور سیاسی کارکنوں کو لمبی لمبی قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
سعودی عرب کی سیکیورٹی فورسز نے گذشتہ مہینوں میں العوامیہ کے شیعہ نشین علاقے کے عوام کو کچلنے کے لئے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کیا ہے۔
العوامیہ کے عوام کا قصور یہ تھا کہ وہ دوسرے سعودی شہریوں جیسے حقوق کا مطالبہ کررہے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق آل سعود حکومت نے دوسال پہلے دھشت گردی سے مقابلے کے نام پر ایک قانون منظور کیا ہے، جس کو بہانہ بناکر سعودی حکومت نے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں مں اضافہ کیا ہے بلکہ وہ اس قانون کو سامنے رکھکر سعودی عوام کے خلاف اپنائے گئے اپنے ظالمانہ اور مخالفین کو کچلنے والے اقدامات کی توجہیہ کرنا چاہتی ہے۔
آل سعود کی استبدادی، پرتشدد اور مخالفین کو کچلنے والی پالیسیوں کے خلاف سعودی عوام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مخالفت، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس ڈکٹیٹر حکومت کو سعودی عرب میں عوامی جمہوری حکومت کے قیام کے لئے جاری تحریک کو روکنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔یاد رہے سعودی عرب  میں سیاسی و سماجی تنظیموں کی تاسیس نیز خواتین کو حق رائے دہی اور ڈرائیونگ کرنے جیسے حقوق  بھی حاصل نہیں ہیں۔


ٹیگس