Jan ۰۲, ۲۰۱۶ ۱۰:۳۹ Asia/Tehran
  • امریکی حکام کی زبان سے شیعہ اور سنی کی بات سنتے ہی باشعور افراد تشویش میں مبتلا ہو گئے

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت 17 ربیع الاول کی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداران، تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفراء اور وحدت اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لئے تہران آنے والے مندوبین، نیز مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے منگل کی صبح رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

اس ملاقات میں رہبر انقلاب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اسلام کے طلوع اور بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نتیجے میں، آفت زدہ اور مردہ دور جاہلیت میں، نئی جان پڑ جانے، حقیقی روحانیت اور حیات نو کی لہر دوڑ جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج بھی دنیائے اسلام اور خاص طور پر سچے مفکرین اور علماء کا فرض ہے کہ ظلم و تفریق اور قسی القلبی سے پر موجودہ دنیا میں اسلام و معنویت کی حقیقی روح پھونکیں۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اب عالم اسلام کی باری ہے کہ عالمی علم و دانش اور وسائل نیز عقل و خرد و تدبر و بصیرت کی مدد سے جدید اسلامی تمدن کی تشکیل کی سمت قدم بڑھائے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عالم اسلام سے جس سطح پر توقعات ہیں ان کے مقابلے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یوم ولادت جس انداز سے منایا جاتا ہے وہ بہت کم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج امت مسلمہ کا فریضہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم ولادت یا یوم بعثت کا جشن برپا کرے، بلکہ دنیائے اسلام کو چاہئے کہ جدید اسلامی تمدن کی منزل تک پہنچنے کے لئے کمر ہمت کسے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: جدید اسلامی تمدن کا مطلب نئے علاقوں پر قبضہ، انسانوں کے حقوق کی پامالی اور دیگر اقوام پر اپنی ثقافت اور اخلاقیات کو اس طرح مسلط کر دینا نہیں ہے جیسا مغربی تمدن نے کیا ہے، بلکہ اس سے مراد بشریت کو فضیلت الہیہ کا تحفہ پیش کرنا اور ایسے حالات فراہم کرنا ہے کہ لوگ خود صحیح راستہ چنیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس نکتے سے بحث کی کہ اسلامی دنیا کے علم و دانش اور فلسفے کو استعمال کرکے مغرب نے اپنے تمدن کی بنیاد رکھی، آپ نے مزید فرمایا: "آگرچہ یہ تمدن ٹیکنالوجی، سرعت، رفاہ اور زندگی میں استعمال کے گوناگوں وسائل کی خوبصورت جھلکیوں سے آراستہ ہے، لیکن وہ بشریت کو خوش بختی، سعادت او انصاف و مساوات نہیں دے سکا اور خود اپنے اندر تضادات سے دوچار ہے۔"

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اپنی ظاہری چمک کے باوجود مغربی تمدن آج اخلاقی اعتبار سے تباہ اور روحانی اعتبار سے اس طرح کھوکھلا ہو چکا ہے کہ خود اہل مغرب بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اب دنیائے اسلام کی باری ہے کہ جدید اسلامی تمدن کی داغ بیل رکھنے کے لئے قدم بڑھائے۔ آپ نے کہا کہ اس ہدف تک رسائی کے سلسلے میں دنیائے اسلام کے سیاستدانوں سے کوئی امید نہیں ہے، بلکہ علمائے دین اور سچے دانشور جنھوں نے مغرب کو اپنا قبلہ نہیں بنایا ہے، امت اسلامیہ کے درمیان حقائق سے لوگوں کو آگاہ کریں اور یاد رکھیں کہ اس تمدن کی تشکیل کے امکانات موجود ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے اندر موجود توانائیوں اور صلاحیتوں منجملہ اچھی سرزمینوں، بہترین جغرافیائی محل وقوع، بے پناہ قدرتی وسائل اور با صلاحیت افرادی قوت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان صلاحیتوں اور حقیقی اسلامی تعلیمات کا امتزاج عمل میں آ جائے تو امت اسلامیہ علم و سیاست، ٹیکنالوجی اور دوسرے گوناگوں سماجی میدانوں میں اپنی فنکارانہ خلاقیتوں کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے اسلامی جمہوری نظام کو ان اعلی اہداف تک رسائی کے امکانات موجود ہونے کی ایک مثال قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ایران علمی و سماجی اعتبار سے پسماندہ، سیاسی اعتبار سے الگ تھلگ، ملکی امور کے اعتبار سے پوری طرح دوسروں پر منحصر تھا، لیکن آج اسلام کی برکت سے ملت ایران اپنی شناخت اور شخصیت کو متعارف کرانے میں کامیاب ہوئی ہے اور وطن عزیز جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں اہم پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور ان میدانوں میں دنیا کے معدودے چند ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اسی تجربے کو پورے عالم اسلام میں دہرایا جا سکتا ہے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اس مقام تک پہنچنے کی ایک شرط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ قوموں پر بڑی طاقتوں کے کنٹرول کو کم کیا جائے۔ البتہ اس کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے کیونکہ اعلی اہداف و مقاصد تک، بغیر کوئی قیمت ادا کئے، رسائی ممکن نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اسلامی تمدن میں مغربی تمدن کے برخلاف کوئی بھی ملک طاقت کے بلبوتے پر قبضے میں نہیں کیا جاتا۔ آپ نے فرمایا کہ جدید اسلامی تمدن کی داغ بیل ڈالنے کے مسئلے میں ہمیں اہل مغرب سے آس نہیں لگانی چاہئے اور نہ ہی ان کی مسکراہٹوں یا پیشانی کی تیوریوں پر توجہ دینی چاہئے، بلکہ اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کی مدد سے صحیح راستے پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق جدید اسلامی تمدن کی تشکیل کو روکنے کے لئے دشمن کے پاس سب سے اہم حربہ مسلمانوں کے اندر تفرقہ پھیلانا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب امریکی حکام اور سیاستدانوں کی زبان سے شیعہ اور سنی کی باتیں سنائی دینے لگیں تو اہل فکر اور با شعور افراد کو فورا تشویش لاحق ہوئی کیونکہ یہ طے تھا کہ وہ پہلے سے زیادہ خطرناک سازش رچنے میں مصروف ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ امریکی، خود اسلام کے مخالف ہیں، لہذا ان کے ایسے بیانوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے جو وہ بعض اسلامی فرقوں کی حمایت میں دیتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ سابق امریکی صدر نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد جو صلیبی جنگ کی بات کی تھی وہ اسلام کے خلاف سامراجی دنیا کی جنگ کا اشارہ تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کے موجودہ حکام کے اسلام کی موافقت میں دئے جانے والے بیانوں کو بھی حقیقت کے خلاف اور ان کی منافقت کا شاخسانہ قرار دیا اور فرمایا کہ امریکا کے موجودہ حکام بھی اسلام کے مخالف ہیں اور اپنے بیانوں کے برخلاف وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور اس کی مثال داعش اور اسی طرح کے دوسرے دہشت گرد فرقوں کی تشکیل ہے جو امریکا سے وابستہ طاقتوں کے پیسے اور ان کی سیاسی پشت پناہی سے وجود میں آئے ہیں اور آج دنیائے اسلام میں بھیانک المیوں کو جنم دے رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اہل سنت کی موافقت اور اہل تشیع کی مخالفت پر مبنی امریکی حکام کے بیان سراسر دروغگوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا غزہ کے عوام جنھیں حملوں کی آماجگاہ بنایا گیا، سنی نہیں تھے یا غرب اردن کے علاقے کے عوام سنی نہیں ہیں جن کے ساتھ اتنی سختی کی جا رہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایک امریکی سیاسی رہنما کے بیان کا حوالہ دیا جس نے یہ کہا تھا کہ امریکا کا دشمن اسلامی رجحان ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ امریکیوں کی نظر میں شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، وہ ہر اس مسلمان کے دشمن ہیں جو اسلامی احکام و قوانین کے مطابق زندگی گزارنا اور جدوجہد کرنا چاہتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے امریکیوں کا سارا جھگڑا اسلامی احکامات و فرامین کی پابندی اور اسلامی تمدن کی تشکیل کی خاطر ہے۔ آپ نے فرمایا: " یہی وجہ ہے کہ جب اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو وہ سراسیمہ اور سخت فکرمند ہو گئے اور اسے کنٹرول کرنے کی کوشش میں لگ گئے اور بعض ملکوں میں کامیاب بھی ہوئے، لیکن اسلامی بیداری کی لہر ختم ہونے والی نہیں ہے اور لطف خداوندی سے اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی۔"

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ سامراجی محاذ کا اصلی ہدف مسلمانوں کے درمیان داخلی جنگیں شعلہ ور کرنا اور شام، یمن، اور لیبیا جیسے ممالک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا: " دشمن کی ان سازشوں پر خاموش ہوکر سر نہیں جھکا دینا چاہئے بلکہ بصیرت حاصل کرکے اور استقامت کا جذبہ قائم رکھتے ہوئے سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔"
رہبر انقلاب اسلامی نے بحرین کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، تقریبا ایک سال سے یمن پر شب و روز جاری بمباری، شام اور عراق کے حالات اور نائیجیریا کے حالیہ واقعات پر دنیائے اسلام کی خاموشی پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ کیوں مصلح، مومن اور اتحاد کے لئے کوشاں بزرگ رہنما کے ساتھ یہ المناک برتاؤ کیا جائے، ان کے بچے شہید کر دئے جائیں، تقریبا ایک ہزار انسانوں کا قتل ہو اور دنیائے اسلام خاموش تماشائی بنی رہے؟

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ دشمنان اسلام کے عزائم بہت خطرناک ہیں اور سب کا فریضہ ہے کہ بیداری اور بصیرت کا ثبوت دیں جبکہ اس سلسلے میں علمائے اسلام اور سچے دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ عوام اور زندہ ضمیر رکھنے والے سیاستدانوں سے گفتگو اور حقائق کو بیان کریں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ جب دنیائے 'زر و زور' اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ دنیائے اسلام کے خلاف خطرناک سازشیں رچ رہی ہے تو کسی کو حق نہیں ہے کہ غفلت کی نیند سوئے اور حقائق کے بیگانہ رہے!

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت داکٹر حسن روحانی نے بھی حاضرین سے خطاب کیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کو اخلاق و پاکیزگی کا اسوہ حسنہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کو اتحاد، وحدت اور مساوات کا پیغام دیا۔

صدر روحانی نے کہا کہ آج تمام ادوار سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ نبی اکرم کی پیروی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی قوم کے اتحاد اور اپنے عظیم رہبر کی قیادت میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابل فتح سے ہمکنار ہوئے اور کامیابیوں کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔

صدر مملکت نے پارلیمنٹ اور ماہرین کی کونسل 'مجلس خبرگان' کے مجوزہ انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے ان انتخابات کو ملک کے بین الاقوامی وقار کا امتحان قرار دیا اور کہا کہ انتخابات میں ہم سب کو اسلامی نظام اور وطن عزیز کی فتح کی فکر میں رہنا چاہئے۔

صدر روحانی نے اپنی تقریر میں 30 دسمبر 2009 کو ایران میں قومی سطح پر اسلامی نظام کے حق میں اور سازشی عناصر کے خلاف ہونے والے فیصلہ کن مظاہروں کو ایرانیوں کا رزمیہ کارنامہ قرار دیا اور کہا کہ 30 دسمبر کا دن خاندان رسالت، اسلامی نظام، قانون اور ولی فقیہ کے دفاع میں ملت ایران کے اٹھ کھڑے ہونے کا دن تھا۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران میں جو امن و استحکام کی صورت حال ہے وہ رہبر انقلاب کی حکیمانہ تدابیر اور منصوبوں کا ثمرہ ہے اور اس نعمت کا شکرانہ یہ ہوگا کہ اتحاد کو مزید مستحکم بناکر اور دنیائے اسلام کی مدد کرکے ملکوں کو دہشت گردی اور اغیار کی مداخلتوں سے نجات دلائی جائے۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ دشمنوں نے عالم اسلام کو آپس میں دست و گریباں کر دیا ہے، اب اگر بڑے اسلامی ممالک آپس میں مل کر تمام مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں سوچیں تو علاقے کے مسائل کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض اسلامی ممالک آپس میں ثقافتی و اقتصادی تعاون کرنے کے بجائے علاقے کے باہر کی طاقتوں سے روابط بڑھا رہے ہیں اور یہ افسوس کا مقام ہے کہ کوئی ملک سیاسی میدان میں کسی قوم کی فتح سے ناراض ہو جائے اور عالم اسلام کے سیاسی سرمائے کو کوڑیوں کے بھاؤ بیرونی طاقتوں کے حوالے کر دے۔

صدر روحانی نے کہا کہ جس ملک نے تیل کی قیمتیں گرانے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا، آج اس کے آئندہ سال کے بجٹ میں سو ارب ڈالر کا خسارہ نظر آ رہا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو دوسروں کے لئے کنواں گھودتا ہے وہ پہلے خود ہی اس میں گرتا ہے۔

پروگرام کے آخر میں وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکا نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے کچھ دیر تک گفتگو کی۔

ٹیگس