Jan ۲۷, ۲۰۱۶ ۱۱:۲۳ Asia/Tehran
  • سعودی تکفیری فِتنہ

سرکاری طورپرسعودی عرب میں98فیصد مسلمان ہیں جس میں سے 15فیصد اہل تشیع تیل کی دولت سے مالامال مشرقی علاقوں میں آبادہیں مگر اُن کے ساتھ پورے سعودی عرب میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اورتیسرے درجے کاشہری تصور کیا جاتا ہے۔

طاہرعبداللہ

شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں:

اللہ سے کرے دُورتوتعلیم بھی فتنہ       اِملاک بھی اولادبھی جاگیربھی فتنہ

ناحق کیلئے اُٹھے توشمشیربھی فتنہ     شمشیرہی کیانعرہ ء تکبیربھی فتنہ

ہیومن رائٹس واچ 2009ء کی رپورٹ کے مطابق مذہب،تعلیم ، انصاف اورباقی تمام شعبہ جات میں ملازمت میں ایک منظم اندازمیں امتیاز برتا جاتا ہے۔ شیعیت دشمنی کی انتہاہے کہ ملک بھرمیں وہابی ازم کاپرچارکیاجاتاہے ۔ تعلیمی اداروں میں شیعہ اسلام کویہودی سازش کانتیجہ اورموت کاسزاوارقراردیاجاتاہے۔ اگرکوئی شیعہ طالب علم وہابی ٹیچرکی اِس گستاخی کاجواب دے تو5سوسے 8سوکوڑے اور 2 سے 4سال قیدکی سزادی جاتی ہے۔  شیعہ مسلمانوں کے خلاف حکومتی سطح پرکتابیں شائع اورتقسیم کی جاتی ہیں۔ 10محرم کوچھٹی توکجاشیعہ طلباء اورٹیچرزکوشرکت کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ سعودی عرب میں شیعہ افرادجج نہیں بن سکتے،ملٹری اکیڈمی میں داخلہ نہیں لے سکتے حتی کہ پائلٹ نہیں بن سکتے بلکہ سکول پرنسپل تک نہیں بن سکتے۔ شیعہ دُشمنی کی انتہایہ ہے کہ عدالتوں میں شیعہ افرادکی گواہی تک قبول نہیں۔  اِس طرح کے زہرآلوداُموی ماحول میں اگرکوئی مردِمومن، حکومت مخالف ہواورساتھ شیعہ بھی ہوتوپھر اُسے جینے کاکوئی حق نہیں جیساکہ شیخ نمرنے اپنی تقریرمیں سیکورٹی افسرکی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا"آپ شیعہ لوگوں کوجینے کاحق نہیں ہے اگرہمارابس چلے توہم تمام شیعوں کاخاتمہ کرڈالیں"۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کاکہناہے کہ سلطنت سعودی عرب کاناقص نظامِ انصاف بڑے پیمانے پرسزائے موت دئیے جانے میں مددفراہم کرتاہے۔  ملزموں کووکیلوں کی سہولت مہیانہیں کی جاتی ،لوگوں کوپولیس حراست کے دوران تشددسے حاصل کئے جانے والے اعترافی بیانات کی بناپرموت کی سزادے دی جاتی ہے اورججوں کوبھی صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں جس کی بناپرعدالتی فیصلوں میں واضح تضادپایاجاتاہے۔ بہت سے واقعات میں موت کی سزابندکمروں میں غیرمنصفانہ اورسرسری سماعتوں کے بعدسنادی جاتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ سعودی عرب جہاں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں وہی ملک اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پینل کاسربراہ ہے۔

شیخ نمرباقرالنمروہ مردمجادہدتھے جنہوں نے شیعہ قوم کے ساتھ ہونے والے اِسی ناروا اور امتیازی سلوک کے خلاف آوازِاحتجاج بلندکی اورملک میں آئینی واصلاحی اصلاحات کاپرزورمطالبہ کیا۔ جس کی پاداش میں اُنہیں 2جنوری کو شہیدکردیاگیااوراُن کاجسدخاکی بھی ورثاکے حوالے نہ کیاگیا۔ باقرنمرملک کے مشرقی علاقوں اوربحرین میں خاصااثرورسوخ رکھتے تھے۔ باقرالنمرسعودی عرب کے مشرقی شیعہ اکثریتی صوبے قطیف کے شہرالعوامیہ میں 1959ء میں پیداہوئے۔ اُن کے والد بزگوار علی بن ناصرالنمراپنے علاقے کے معروف عالم اورخطیب تھے۔ انقلاب ایران کے فوراً بعدایرانی شہرقم میں دس سال تک دینی تعلیم حاصل کیا اور کچھ عرصہ شام میں گزارا۔ واپسی پرآبائی شہر میں دینی تعلیم وتدریس میں مصروف ہوگئے۔ شہرمیں مرکزی نمازجمعہ قائم کی اورخطیب مقررہوئے۔ آپ عراقی مجتہدآیت اللہ محمدشیرازی اورمحمدتقی المدرسی سے مذہبی رہنمائی لیتے تھے۔ آپ نے جنت البقیع کی تعمیرنوکیلئے سیاسی جدوجہدکاآغازکیااورہرسال آٹھ شوال کومظاہروں اورمجالس کااہتمام بھی کرتے تھے۔ سعودی حکمرانوں کومذہبی بنیادوں پرروارکھے جانے والے امتیازی سلوک کوترک کرنے اورشیعہ عوام کواُن کے جمہوری اورمذہبی حقوق دئیے جانے پرزوردیتے رہے۔ 2007ء میں مظاہروں پرپابندی لگادی گئی، اگلے سال اُن کی زبان بندی کردی گئی۔ وہ مسلح جدوجہدکے خلاف تھے ، ظلم کے خلاف آوازبلندکرنے کوترجیح دیتے تھے اورگولی کی طاقت سے زیادہ الفاظ اوراحتجاج کی طاقت پریقین رکھتے تھے۔ 2003ء سے لیکر2008ء تک اُنہیں پانچ بارگرفتارکیاگیااورمہینوں جیل میں رکھاگیا۔ اُنہیں نمازجمعہ پڑھانے سے منع کیاگیا، نہ رُکنے پراُس مسجدکومسمارکردیاگیا، آپ اُسی مسمارشدہ مسجد کی جگہ پرنمازپڑھاتے رہے۔ اُن کی گرفتاری سے قبل اُن کے بھتیجے علی محمدباقرکو15سال کی عمرمیں گرفتارکیاگیا۔ اُن پر بغاوت، شاہ کی نافرمانی، فسادات کرانا، سیکورٹی اہلکاروں پرپٹرول بم پھینکنا اورڈکیتی جیسے الزامات لگاکرپھانسی سنادی گئی جس پرعالمی اداروں نے آوازحق بلندکی ہوئی ہے کیونکہ بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن پر سعودی حکومت نے دستخظ کررکھے ہیں جس میں 18سال سے کم عمر بچوں پرمقدمہ نہیں چلایاجاسکتا۔ شیخ باقرالنمرکو آخری بارفائرنگ کرکے شدیدزخمی حالت میں 8جولائی 2012ء میں گرفتار کیا گیااور اُن پربے پناہ تشددکیاگیا۔  45دن تک بھوک ہڑتال کرنے ،مظاہروں اور عالمی سطح پرشدیدردعمل کے باوجوداُن کورہانہ کیا گیا۔ اِسی دوران شیخ نمرکی زوجہ انتقال کرگئیں لیکن پے رول پررہانہ کیاگیا۔  2014ء میں نمائشی اورربڑسٹمپ عدالت نے مجاہدعالم دین اور آمریت مخالف رہنماکوبے بنیادالزامات کے تحت موت کی سزاسنادی گئی۔ اُن کے خلاف مقدمہ کی تمام تر سماعت کوخفیہ رکھاگیااورمیڈیاکو شرکت کی اجازت نہ دی گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اورایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ دنیابھرکی 17مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں نے سعودی بادشاہ سے رحم کی اپیل کی اور پھانسی کی سزاپرعمل درآمدروکنے کامطالبہ کیالیکن سعودی حکام نے تمام انسانی اوراخلاقی اقدارکوپامال کرتے ہوئے اِس عالم ربانی کو شہید کر دیا ۔ آیت اللہ باقرنمرسعودی شخصیت نہیں تھے بلکہ وہ ایک عظیم عالمی شخصیت تھے جنہیں صرف تنقیدکے جرم میں ذبح کیاگیا۔ ان کی بے جرم وبے خطاگردن زنی کرکے ایک اورغیرانسانی ، غیراسلامی اورغیراخلاقی جرم کاارتکاب کیاہے۔

اِس باخبر اورتیزگلوبل ویلج میں سعودی عرب چاہے کہ اُس کے مذموم اورمنحوس کام کی کسی کوخبرنہ ہواورکوئی مذمت تک نہ کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ شیخ نمرکی شہادت پرایران اوردُنیابھرمیں پایاجانے والا ردِعمل فطری،انسانی اوراخوت وبھائی چارے کامظہرہے۔  اِسی بات کی تائید میں علامہ اقبال نے فرمایاتھا:

اُخوت اِس کوکہتے ہیں چبھے کانٹاجوکابل میں توہندوستان کاہرپیروجواں بیتاب ہوجائے

سعودی عرب عالمِ اسلام کانمائندہ ملک کیسے ہوسکتاہے جوسب سے بڑی بلڈنگ بناکردنیاکاپہلاملک بنناتوپسندکرتاہے لیکن خواتین کوچندماہ پہلے صرف بلدیاتی الیکشن میں ووٹ کاحق دے کردُنیاکاآخری ملک بن جانے میں شرم وعارمحسوس نہیں کرتا۔ انصاف اورعدل کی حکمرانی کاشورکرنے والاملک رائف بداوی کوسعودی حکومت کے خلاف لکھنے پردس سال قید، ایک ہزارکوڑے اورپونے دولاکھ پاؤنڈجرمانہ کی سزاتودے دیتاہے لیکن سعودی کفیل اگربھارتی ملازمہ کستوری منی کاہاتھ ہی نہیں بلکہ پورابازوکاٹ دے توعدالت عظمی ٰکی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔  تین صدیاں حکمرانی کرنے کے دعویدارسعودی حکمران سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرنے اورجیل کے حالات پرتنقیدکرنے والے اصلاح پسندمصنف زہیرکتبی کوچارسال قید،پندرہ سال لکھنے اورپانچ سال تک بیرون ملک سفرکرنے پرپابندی اور26,600ڈالرجرمانہ کی سزاتودے دیتے ہیں لیکن بھارتی دارلحکومت دہلی سے ملحق شہرگڑگاؤں میں سعودی سفارت کارکی جنسی درندگی کانشانہ بننے والی دونیپالی خواتین کی انصاف طلب چیخوں کی گونج کوبھارت میں ہی دبادیاجاتاہے۔ خادم حرمین شریفین کی ڈفلی بجانے والے حکمران شاعراورآرٹسٹ اشرف فیاض کاتوہین مذہب کے الزام میں سرتوقلم کردیتے ہیں لیکن اگرا مریکی ریاست کیلی فورنیامیں سعودی شہزادہ مجید عبدالعزیزالسعودتین ملازم خواتین پرجنسی تشددکرے توتین لاکھ ڈالرکے بانڈکے عوض حکومتی سطح پرمعاملہ رفع دفع کرادیاجاتاہے۔

ایک مقتدرعالمی شخصیت کوقتل کرنے کے ردِعمل میں اگرایک عمارت کوجزوی طورپرجلادیاجاتاہے توچورمچائے شورکے مصداق سعودی عرب اِس پرواویلاوشورمچادیتاہے اورعالمی لیول پراپنی حمایت میں اِیران سے سفارتی تعلقات منقطع کرادئیے جاتے ہیں۔  کیا سعودی حکمران بتاسکتے ہیں کہ پری پلان سانحہ منیٰ میں شہید ہونے والے ہزاروں حاجیوں پراُس نے کتنے ملکوں اورشہیدحجاج کے خاندانوں سے افسوس کااظہاراورمعذرت کی ۔ بلکہ جھوٹ کی انتہاکرتے ہوئے دنیابھرکے میڈیاکوغلط اعدادوشماربتائے گئے ۔ سوائے ایران اورسابق پاکستانی وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے بھانجے کے، درجنوں ملکوں کولاشے تک واپس نہیں کئے گئے۔ یہی وہ سنگدل حکمران تھے جنہوں نے 1987ء میں سینکڑوں حجاج کومکہ کی سڑکوں پر بزرگ شیطان امریکہ کے خلاف مرگ برامریکہ کی رمی کرنے کی پاداش میں گولیوں سے بھون ڈالاتھااور خانہ کعبہ پرقبضے کامکروہ الزام لگادیاتھا۔ اب پروپیگنڈہ اورالزام یہ ہے کہ ایران اُن کے ملکی معاملات میں مداخلت کررہاہے ۔ کیا سعودی حکمران بتاسکتے ہیں کہ ایک آزاداورخودمختارعرب ملک یمن میں سعودی عرب اوراُس کے عرب افریقی اتحادی کیاکھیل کھیل کررہے ہیں ؟

دشمن کی دیوارگرے چاہے اپنے اوپرہی کیوں نہ گرے کی عملی مثال سعودیہ پرصادق آتی ہے۔ پچھلے سال جس کابجٹ خسارہ صرف 8ارب ڈالر تھا اِس سال وہ 2کھرب 98ارب ڈالرکے خسارہ بجٹ کی دلدل میں پھنس چکاہے۔ بصیرت سے عاری اوربصارت کے اندھے حکمران شیعہ اورایران دشمنی میں غیرانسانی،غیراسلامی اورغیراخلاقی ہتھکنڈے اپناکرقومی سرمایہ ضائع پہ ضائع کررہے ہیں۔  پاکستان کے ٹوٹل زرمبادلہ کے ذخائرصرف 21ارب ڈالرہیں اورسعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے صرف اندرونی بغاوت کوکچلنے اور کرسی ءِ اقتدارکومضبوط بنانے کیلئے25ارب ڈالراپنی عوام کامنہ بندکرنے پر خرچ کر دئیے۔  اسی طرح ایران اورروس کی مضبوط معیشت کونقصان پہنچانے اورسیاسی مفادحاصل کرنے کے چکرمیں تیل کی قیمت گرادی گئی چاہے سعودی عوام کیلئے تیل 50فیصدمہنگاہی کیوں نہ کرناپڑے۔  حوثی زیدی عسکریت پسندجواہل سنت مسلک سے زیادہ قریب ہیں اُن سے جنگ اِس لئے واجب کردی گئی کہ ایک تووہ بیدارہوچکے ہیں دوسرااُن کی اخلاقی اورسیاسی حمایت ایران کرتاہے ۔ مظلوم فلسطینی بھائیوں کوپسِ پشت ڈال کراسرائیل سے دوستی اُستوارکی گئی کیونکہ فلسطین کاسب سے بڑاحمایتی اورامدادی ملک ایران ہے جوعالمی سطح پریوم القدس کاپرچارکرتاہے اوراسرائیل کادشمن ہے۔  سیاسی اورمذہبی مفادات کی خاطر مذہب ومسلک کی آڑمیں گھناؤناکھیل رچایاجارہاہے۔  خادم حرمین شریفین کالبادہ اوڑھ کرعالم اسلام کودھوکہ دیاجارہاہے۔ وہ کیسے حرم مکہ کے خادم ہوسکتے ہیں جن کے فوجی حجراسودپرفوجی بوٹ رکھے تصویربنوارہے ہوں ۔ وہ کیسے عاشقان رسول ؐہوسکتے ہیں جوروضہ رسول ؐکوچومناتودرکنارروضہ رسول ؐکی جانب رُخ کرکے دُعامانگنے پرعاشقانِ رسولؐ سے پاسپورٹ تک چھین لیتے ہیں۔  خدا جانے کہ یہ کھیل کب تک کھیلاجائے گااورعوام کب تک دھوکہ کھاتی رہے گی؟

کہیں ایساتونہیں کہ سعودی وہابی حکمران اب سلطنت بچانے کی ناکام کوششیں کررہے ہوں کیونکہ تکفیری مفادات ونظریات کوتمام دُنیانے پہچان لیا ہے کیونکہ دُنیابھرکے تمام دہشت گردگروہ نہ صرف وہابی نجدی نظریات کے حامل ہیں بلکہ اِنہیں کے پروردہ ہیں۔ اب 7 ہزار شہزادوں کی شاہی اُمیدوں اور 30 ہزارشاہی افرادکے شاہی چونچلوں کوتحفظ بخشنے کیلئے اِس طرح کے غیراسلامی اورغیرانسانی اقدامات کرنے کے علاوہ اُس کے پاس کوئی اورراستہ اورچارہءِ کارنہیں بچا کیونکہ اندرونی وبیرونی دباؤشاہی دروازوں پرانقلابی دستک دے رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کمزوراورخوفزدہ ملک ہی اپنی بقاکی خاطراتحادبناتا ہے اور اِسی لئے توسعودی عرب کی وہابی چھتری تلے اسلامی شیعتی نظریات و مفادات کوکچلنے کی خاطر بننے والے 34 ملکی اتحادنے پہلاوارچنددن پہلے اپنے اتحادی ملک نائیجیریامیں کیا۔ جہاں ایک ہزار سے زائد شیعہ مسلمانوں کوفوجی گولیوں سے بھون ڈالاگیا۔  ملک نائیجیریاکے شیعہ قائدشیخ ابراہیم یعقوب زکزکی کومع زوجہ اورآخری فرزندمحمدکے ساتھ شدیدزخمی حالت میں گرفتار کیاگیاجن کاتاحال کوئی علم نہیں۔ اِس بربریت میں اُن کے تین جوان سال فرزنداوراسلامی تحریک نائیجیریاکے نائب بھی شہید ہو گئے۔  یاد رہے کہ ایک سال پہلے اُن کے تین فرزندپہلے بھی شہیدہوچکے ہیں۔ اب اتحادی سربراہ سعودی عرب نے اپنی سلطنت میں شیعہ قوم کے قائدآیت اللہ شیخ باقرالنمرکاسرقلم کرکے داعش کی طرح اسلامی دنیاکوخوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ چندماہ پہلے سانحہ مکہ میں ایران کے 464 حجاج کو پری پلان شہیدکیاگیاجس میں چارسفیراورکئی نامورشخصیات شامل تھیں۔ ہوسکتاہے کہ اگلا وار شام اورعراق میں داعش کوکچلنے کے نام پرمغربی اتحادیوں کے تعاون سے فضائی حملے یافوج بھیج کر کیاجائے۔ اللہ کرے پاکستان کی شریف حکومت اورشریف فوج نے جوموقف اپنایاہے وہی حقیقت بھی ہو،اندرخانے کوئی اوربات نہ ہو۔ شریف حکومت پرتوشبہ ہوسکتاہے کیونکہ سرخ رومال اورریال کے اُن پرزندگی بھرکے اور زندگی بچانے کے احسانات ہیں لیکن شریف فوج سے قوم کو قوی اُمیدہے کہ وہ نہ صرف اِس فرقہ وارانہ بنیادپربننے والے اتحادسے دوررہے گی بلکہ آرمی کے دشمن دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ شیعہ دشمن دہشت گردوں کوبھی فوجی عدالتوں کے ذریعہ پھانسی کے تختے پرضرورلے جائے گی۔

ٹیگس