Jan ۲۳, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۲ Asia/Tehran
  • یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے نئے نمائندے کا تعین

خبری ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے، مارٹین گریفیٹس کو اسماعیل ولد شیخ احمد کی جگہ، یمن میں اس ادارے کے ن‏ئے نمائندے کی حیثیت سے متعین کیا ہے۔

یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے اسماعیل ولد شیخ احمد نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوترش کو یہ اطلاع دی دے ہے کہ یمن میں ان کے مشن کی مدت ختم ہوجانے کے بعد وہ دوبارہ اس عہدے پر باقی نہیں رہیں گے۔ ولد الشیخ احمد کے مشن کی مدت میں آخری بار چارمیہنے کے لئے گذشتہ اکتوبر میں توسیع کی گئی تھی جو فروری کے آخر تک ختم ہوجائے گی۔ 

یمن کا بحران 2015 میں اس ملک پر سعودی عرب کے حملے کے وقت سے شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے اور تقریبا تین سال کی اس مدت میں اکیس ہزار سے زیادہ یمنی شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ یہ حملے یمن کے عوام کے قتل عام کے علاوہ اس ملک کی بنیادی تنصیبات کی بھی ویرانی اور تباہی و بربادی کا باعث بنے ہیں۔ سعودی عرب نے اس ملک کے عوام کو شدید محاصرے میں رکھا ہے اور اس وقت یمنی عوام وسیع پیمانے پر انسانی بحران سے دوچار ہیں کہ جسے صدی کا انسانی المیہ کہا جا رہا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کے وسیع حملوں پر رائے عامہ نے اپنا ردعمل ظاہرکیا ہے تاہم عالمی برادری اور ان میں سرفہرست اقوام متحدہ کے لچکدار رویوں کے باعث یہ حملے بدستور جاری ہیں اقوام متحدہ نے اپنے اس رویے کے سبب یمن کے بحران کے سلسلے میں قابل قبول کارنامہ پیش نہیں کیا ہے اور وہ یمن میں سعودی عرب کے جرائم رکوانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ 

یمن کے خلاف سعودی عرب کے حملے بدستور جاری ہیں جو وسیع پہلو اختیار کرگئے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ  بحرانوں اور مسائل سے نمٹنے کے سلسلے میں اقوام متحدہ میں پائی جانی والی دوہرے معیار کی پالیسیوں کے سبب، آل سعود حکومت کسی رکاوٹ اور جھجک کے بغیر اپنی جارحتیں جاری رکھے ہوئے ہے- سعودی عرب کے سلسلے میں اقوام متحدہ کا دوہرا معیار بہت واضح ہے- اقوام متحدہ کے عالمی ادارے نے ایک جانب یمن کے خلاف آل سعود کی جارحیتوں کے سلسلے میں ایسے اعداد و شمار پیش کیے ہیں جن کا سعودی حکومت نے خود اعتراف کیا ہے اور اسے باخبر بھی کیا ہے لیکن عملی طور پر سعودی عرب سے نمٹنے میں ٹھوس اقدامات انجام نہیں دیئے ہیں-

اقوام متحدہ نے کچھ عرصہ قبل، سعودی عرب اور اس کے اصلی حامی یعنی امریکہ کے دباؤ میں آکر، جنہوں نے اقوام متحدہ کو اپنی امداد منقطع کرنے کی دھمکی دی تھی، سعودی عرب کا نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی فہرست سے نکال دیا تھا -اگرچہ اقوام متحدہ کے نئے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوترش کے زمانے میں رائے عامہ کے دباؤ کے سبب سعودی عرب کا نام ایک بار پھر بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہوا ہے تاہم عملی طور پر ان کے دور میں بھی اب تک سعودی عرب کے خلاف اس لحاظ سے کوئی دباؤ یا اقدام عمل میں نہیں لایا گیا ، گویا سعودی عرب نے کوئی جرم کیا ہی نہیں  ہے۔     

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دعویداروں نے یمن پر سعودی عرب کی جارحیتوں پر خاموشی سادھ کر، سعودی عرب کے اتحاد کی جنگی مشینری کو جاری رکھا ہے۔  سعودی عرب کی جارحیت اور یمن کا محاصرہ ختم کرنا صرف جنگ بندی کی راہ سے میسر ہوسکتا ہے لیکن یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کے جاری رہنے سے مذاکرات کا کوئی روشن اور مثبت مستقبل تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جارحیت اور محاصرے کا جاری رہنا مفاہمت اور جنگ بندی سے ہرگز ساز گار نہیں ہے۔ آل سعود کی جانب سے یمن میں جنگ بندی کی مخالفت اور اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنےسے عالمی رائے عامہ اس امر کی طرف متوجہ ہوگئی ہے کہ سعودی عرب ہی جنگ بندی میں بنیادی رکاوٹ ہے اور اپنی خلاف ورزیوں اور مداخلتوں سے یمن میں بحران کے جاری رہنے کا سبب ہے-

 

 

ٹیگس