ایٹمی معاہدے میں تبدیلی کے بارے میں ٹیلرسن کا شک و تردید
امریکی وزیر خارجہ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں ممکنہ تبدیلی کے بارے میں ٹرمپ کی جانب سے دی گئی مہلت کے بارے میں شک و تردید کا اظہار کیا ہے۔
ریکس ٹیلرسن نے لندن میں کہا کہ ممکن ہے کہ امریکہ، صدر ٹرمپ کی جانب سے دی گئی ایک سو بیس دن کی مہلت کے اندر ایٹمی معاہدے کے نقائص کو برطرف نہ کرسکے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم دوسروں کے لئے ٹائم شیڈول معین نہیں کرسکتے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشترکہ ایٹمی معاہدے کی روشنی میں ایران کے خلاف ایٹمی پابندیاں 120 دنوں تک معطل کرنے کا یہ آخری موقع ہے ۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اگر مشترکہ ایٹمی معاہدے میں ان کے مد نظر تبدیلیاں نہ کی گئیں تو وہ مشترکہ ایٹمی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ مذاکرات میں شامل یورپی یونین سمیت برطانیہ، جرمنی فرانس ، روس اور چین نے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں کسی بھی قسم کے دوبارہ مذاکرات انجام پانے کو مسترد کیا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی واضح طور پراعلان کیا ہے کہ وہ نہ ہی دوبارہ مذاکرات کرے گا اور نہ ہی ایٹمی معاہدے میں کسی قسم کی تبدیلی کو تسلیم کرے گا۔
ایران کی وزارت خارجہ نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکی صدر کے پالیسی بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے رسمی بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی معاہدہ ایک مستند عالمی دستاویز ہے اور اس پردوبارہ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ رسمی بیان میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں پایا جانے والا اندرونی استحکام اور اس معاہدے کی عالمی حمایت نے، امریکی صدر، صیہونی حکومت اور جنگ کا نقارہ بجانے والے منحوس اتحاد کی جانب سےایٹمی معاہدے کے خاتمے یا اس میں تبدیلی کا راستہ بند کردیا ہے۔ دوسری جانب وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ٹوئٹ میں امریکی حکام پر زور دیا کہ وہ فرسودہ بیانات کے بجائے ایران کے ساتھ ہوئے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کریں۔
یہی سبب ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے یورپ کے اپنے دورے میں کوشش کی ہے کہ ٹرمپ کی دھمکی سے پیدا ہونے والے تعلطل کو دور کرنے کے لئے کوئی راہ حل تلاش کریں۔ ایک طرف ایران کی پابندیوں کو معطل کرنے کی مدت کا نہ بڑھایا جانا ، ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے ختم ہونے اور امریکہ کے اس معاہدے سے نکل جانے کے مترادف ہوگا،اگرچہ بظاہر امریکی صدر کے سیاسی اور سیکورٹی مشیروں منجملہ اس ملک کے وزیر خارجہ کو یہ بات قبول نہیں ہے، تو دوسری طرف امریکی حکام کے نقطہ نگاہ سے اس وقت امریکی صدر کی حیثیت داؤ پر لگی ہے اور اگر معینہ مہلت کے گذرجانے کے بعد ایک بار پھر ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کو معطل رکھا گیا تو یہ ٹرمپ اور امریکہ کی بھاری شکست ہوگی۔
اسی سبب سے امریکیوں کو توقع ہے کہ کم از کم یورپ ، اس چیز کے مقابلے میں کہ جسے وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی اور میزائیلی سرگرمیوں کا نام دے رہے ہیں، سخت موقف اپنائے اور اس تعطل سے نکلنے کے لئے ٹرمپ کی مدد کرے، ایسے میں غیر ایٹمی مسائل کے سلسلے میں امریکہ اور یورپ کے درمیان ہم آہنگی کی کچھ علامات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایسے میں ہے کہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے تعلق سے یورپ کے ٹھوس موقف کے تناظر میں یہ بعید سمجھا جا رہا ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں کوئی تبدیلی واقع ہوگی۔
ٹیلرسن کا یہ کہنا کہ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی ایک سو بیس دن کی مدت میں کسی نتیجے تک پہنچنا دشوار معلوم ہوتا ہے، اس بات کی علامت ہے کہ امریکی سفارتکاری کو اس سلسلے میں مایوسی ہوئی ہے۔ جس معاہدے کے بارے میں ٹرمپ دوبارہ مذاکرات اور تبدیلی کی بات کر رہے ہیں یہ مذاکرات دس سال سے زیادہ عرصے تک اور دنیا کے سات اہم ملکوں اور یورپی یونین کے اٹھائیس ملکوں کی نمائندگی میں اس یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کے ساتھ انجام پائے تھے اور اس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی صورت میں عالمی برادری نے تائید و تصدیق کی تھی ۔ اس لئے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ عالمی برادری کے خلاف ٹرمپ کی دھمکی، امریکی حکومت کے لئے نتیجہ بخش ثابت ہوگی۔