غلطی معاف کرنا (یغفر زلّتہ)
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
غفر" سے مراد چھپانا اور بخشنا ہے جب کہ "زلۃ "اچانک زمین پر گرنے کے معنی میں ہے اور اسے پھسلنے سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور یہاں لغزش سے مراد گفتگو ،برتاؤ اور اعمال و افعال میں ہونے والی اچانک اور بے اختیار غلطی ہے۔
مومن کا حقیقی بھائی وہ ہے جو اس کی ان اچانک اور ناگہانی غلطیوں کو معاف کرے اور ان سے چشم پوشی کرے۔نہ یہ کہ چھوٹی سی چھوٹی غلطی دیکھنے پر اسے برا بھلا کہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "إِنَّ أَخَاك ُ حَقّاً مَن غَفَرَ زَلَّتَکَ..."۔ بے شک تمہارا حقیقی بھائی وہ ہے جو تمہاری غلطیوں کو چھپائے اگر کوئی مومن کسی مومن کی کوئی غلطی دیکھے تو اس سے چشم پوشی کرے اور دوسرے مرحلے میں اس غلطی کو چھپانے کے لئے کوئی بہانہ نہ بنائے اور اس کی تاویل کرے۔
یعنی یوں سمجھے کہ اس سے دیکھنے میں غلطی ہوئی ہے اور اس شخص کے پاس اس غلطی کی ضرورکوئی دلیل ہوگی اور وہ اس دلیل سے آگاہ نہیں ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"الْتَمِسُوا ُ لِإِخْوَانِكُم ُ الْعُذْرَ فِی زَلَّاتِهِمْ وَ هَفَوَاتِ تَقْصِيرَاتِهِمْ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا الْعُذْرَ لَهُمْ فِی ذلِکَ فَاعْتَقِدُوا اَنَّ ذَلِکَ مِنْکُمْ لِقُصُورِکُمْ عَنْ مَعْرِفََةِ وُجُوهِ الْعُذْرِ "اپنے مومن بھائیوں کی خطاؤں اور غلطیوں کے لئے کوئی بہانہ اور تاویل تلاش کرو اور اگر کوئی بہانہ نہ تلاش کر پاؤ تو یوں سمجھو کہ تم سے بہانہ اور دلیل تلاش کرنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔کبھی کبھار مومنین سے دوسرے بھائیوں کے حق میں کوئی خطا اور غلطی سرزد ہوجاتی ہے اور بعض اوقات یہ غلطی اس طرح کی ہوتی ہے کہ اکثر افراد کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے اور ایسی غلطی کو بخشنا کچھ مشکل ہوتا ہے اور یہ وہ قسم ہے جس میں بخشنا اعلیٰ ظرف اور متحمل مزاج ہونے کی دلیل ہے۔
کسی بھی انسان میں قدرت تحمل اور برداشت کاہونا ایک ایسی فضیلت ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی مشکلات پر قابو پاتا اور بہت سی فضیلتوں کو حاصل کرتا ہے ۔
جب انسان اپنے مومن بھائیوں کی خطاؤں کو بخشنے پر قادر ہو جائے اور ان کی غلطیوں پر انہیں برا بھلا نہ کہے تو یہ ا س کے متحمل مزاج ہونے کی دلیل ہے کیونکہ غلطیوں کو معاف نہ کرنے سے دوستی کا رشتہ کمزور ہوتا ہے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "مَنْ لَم ُ يَحْتَمِل زَلَل الصِّدِّيقِ مَاتَ وَحِيداً " دوستوں کی خطأوں کو تحمل (برداشت) نہ کرنے والا تنہائی کی موت مرتا ہے ۔
پس اس حق کو ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی قوت برداشت میں اضافہ کرے تا کہ مومن بھائیوں کی خطأوں کو معاف کرسکے اور اس معاملے میں کوتاہی نہ کرے جیسا کہ ا میر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں "لا یَقْصِرُوا الْمُؤْمِنُ عَنِ احْتِمَال وَلا يَجزَعُ لِرَزِیَََّةٍ " مومن دوسرے مومن(کی خطا) کو برداشت کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اور مصیبت میں بے تابی نہیں کرتا۔