Nov ۱۵, ۲۰۱۵ ۱۸:۵۵ Asia/Tehran
  • پیرس پر حملے اور متحدہ یورپ

فرانس کے دارالحکومت پیرس پر دہشت گردانہ حملوں کو اگرچہ زیادہ مدت نہیں گزری ہے لیکن یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ پیرس کے دھماکوں کی لہروں سے متحدہ یورپ کی دیوار ، کہ جس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں لرز کر رہ جائے گی۔

پیرس میں کئے جانے والے دہشت گردانہ حملوں سے نہ صرف اس ملک کے عوام بلکہ ساری دنیا چونک سی گئی ہے۔ اور عالمی برادری نے فرانس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے متحد ہونے کی ضرورت پر بھی تاکید کی ہے۔ اس کے باوجود یہ بات یقینی نہیں ہے کہ یہ حملے مشترکہ دشمن سے مقابلے کے لئے متحدہ یورپ کے اتحاد کا راستہ ہموارکر سکیں گے۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ متحدہ یورپ کا مفہوم اس یورپ میں امن کے پھیلاؤ کی نوید سنائے گا جس میں عالمی جنگوں کے دوران فاشزم اور انتہاپسند گروہوں نے متعدد بار پارہ پارہ کر دیا۔ متحدہ یورپ مشترکہ اقدار اور منڈی کی وجہ سے ان یورپی ممالک کے اتحاد میں اضافے کی خوشخبری سنانے والا تھا جس نے اس سے قبل دو مرتبہ دنیا کو تباہ کن جنگوں کا شکار کر دیا تھا۔
متحدہ یورپ کو ابتدا سے ہی تضادات کا شکار تھا۔ ان کے مختلف اور بعض اوقات متضات سیاسی اور اقتصادی مفادات یورپی ممالک کے باہمی اتحاد کے لئے ایک خطرہ شمار ہوتے تھے۔
حالیہ برسوں کے دوران یورپی ممالک کو جن شدید بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ متحدہ یورپ کس حد تک متزلزل ہے۔ ان میں سے ایک اقتصادی بحران ہے جن کا یورپی یونین کے رکن ممالک کو سامنا کرنا پڑا ۔ یورپی رہنماؤں کا اس بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں کسی ایک موقف پر اتفاق نہ ہو سکا۔ اور طاقتور ممالک نے بچت کی پالیسیاں اختیار کرنے پر مقروض ممالک پر دباؤ ڈالا۔ اس کے بعد بھی پناہ گزینوں کے سیلاب سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مفادات کا ٹکراؤ کس قدر یورپی ممالک کے کسی ایک موقف پر متحد ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اب بھی پیرس میں کئے جانے والے دہشت گردانہ حملے متحدہ یورپ کے لئے ایک کڑی آزمائش میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
اتحاد جیسی یورپ ممالک کی اقدار اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان آزادانہ آمد و رفت جیسے اصول اس یونین کے بنیادی اصول شمار ہوتے ہیں لیکن اس سے پہلے والوں بحران ان اقدار اور اصولوں کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ انسان دوستی، برداشت و رواداری اور ملٹی کلچر جیسے اصولوں کے سامنے اس عرصے کے دوران بارہا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ یورپ کے مخالف اور انتہا پسند گروہوں نے بھی اس مدت میں ان بحرانوں سے فائدہ اٹھا کر جن سے متحدہ یورپ دوچار ہے بہت زیادہ طاقت حاصل کر لی ہے۔بنابریں یورپی اقدار اور اتحاد کے کمزور ہونے کے بارے میں تشویش ماضی کی نسبت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب پیرس حملوں کے بعد سارا یورپ خوف و ہراس میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ صورتحال ان انتہا پسند اور اغیار کا مقابلہ کرنے والے گروہوں کی جنّت میں تبدیل ہو جائے گی کہ جو یورپ میں اتحاد ، نیز برداشت و رواداری جیسی اصولوں اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان آزادانہ آمد و رفت کو نشانہ بنانے کے درپے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ یورپ کی دیوار ، کہ جس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں ، نئے بحران کی کس قدر ضربیں برداشت کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

ٹیگس