May ۱۶, ۲۰۱۶ ۲۱:۲۹ Asia/Tehran
  • 15 مئی 1948 اسرائیل کے جرائم کا نقطۂ آغاز

فلسطین کے اعداد و شمار کے مرکز نے گزشتہ روز پندرہ مئی کو فلسطین پر قبضے کے اڑسسٹھ سال مکمل ہونے کی مناسبت سے اعلان کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے اندر اور باہر اکتالیس لاکھ بیس ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں اور وہ اپنے شہر اور وطن سے دور ہیں۔

فلسطینیوں نے پندرہ مئی کو بجا طور پر یوم نکبہ کا نام دیا ہے، کیونکہ پندرہ مئی 1948 کو فلسطین پر صیہونیوں کے قبضے سے مغربی ایشیا کے علاقے میں یہ سرطانی پھوڑا وجود میں آیا۔ مغربی ایشیا کے علاقے پر اس سرطانی پھوڑے کو مسلط کرنا نہ صرف مظلوم فلسطینی عوام کی مختلف مشکلات کا آغاز تھا بلکہ اس علاقے میں بدامنی، عدم استحکام اور جنگ کا اصل سبب تھا۔

1948 سے لے کر اب تک مغربی ایشیا کے علاقے میں ایسی کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے کہ جسے اسرائیل نے شروع نہ کیا ہو یا وہ اس میں ایک متحارب فریق نہ ہو۔ ہر وہ جنگ کہ جس میں اسرائیلی حکومت براہ راست ملوث نہیں تھی، اس کے اس حکومت کے لیے نتائج برآمد ہوئے کیونکہ اسرائیل کے مغربی حامی اس کا دفاع کرنے کے لیے مغربی ایشیا میں ان جنگوں میں اس کے پشت پناہ تھے۔

اسرائیل کی جنگوں اور جنگی پالیسیوں نے کسی بھی ملک سے زیادہ فلسطین پر اثر ڈالا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی سرزمین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اکتالیس لاکھ بیس ہزار فلسطینیوں کو بھی آوارہ وطن کیا ہے۔

بین الاقومی قوانین میں کسی قوم کی سرزمین پر قبضہ اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اور جلاوطن کر دینا انسانیت کے خلاف جرم، امن کے خلاف جرم اور ایک جنگی جرم ہے۔ اسرائیل کے جرائم کے بارے میں اعداد و شمار اس کے زندہ گواہ ہیں۔ فلسطین کے سات سو چوہتر شہروں اور دیہاتوں پر قبضہ، پانچ سو اکتیس شہروں اور دیہاتوں کی تباہی، فلسطینیوں کے قتل عام کے ستر سے زائد واقعات، پندرہ ہزار سے زائد شہید اور اکتالیس لاکھ سے زائد آوارہ وطن فلسطینیوں میں سے تقریبا انتیس فیصد فلسطینی آوارہ وطن۔ ان آوارہ وطن فلسطینیوں میں سے اٹھاون فیصد پناہ گزین کیمپوں میں، دس فیصد اردن میں، نو فیصد شام میں، لبنان میں بارہ پناہ گزین کیمپوں میں، غرب اردن میں انیس پناہ گزین کیمپوں میں اور غزہ میں آٹھ پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ اعداد و شمار اڑسٹھ سال کے ہیں لیکن فلسطینیوں کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی ہے اور اس کا مصداق تحریک انتفاضہ قدس ہے۔ یہ تحریک اب آٹھویں مہینے میں داخل ہو گئی ہے اور اب تک دو سو پندرہ سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے یہ جرائم انسانی حقوق کے دعویداروں خاص طور پر امریکہ اور رجعت پسند عربوں کی براہ راست حمایت سے انجام پائے ہیں۔ اسرائیل کے حالیہ دو برسوں کے جرائم البتہ ان حکمرانوں کی حمایت سے انجام پائے ہیں کہ جو عرب ملکوں پر حکومت کر رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ان کا تعلق عبرانیوں سے ہے۔

اب انتظار کرنا اور دیکھنا چاہیے کہ پندرہ مئی 2017 کو مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے اعداد و شمار کیا کہیں گے۔ جب تک انسانی حقوق کے دعویداروں اور رجعت پسند عربوں کی جانب سے اسرائیل کے جرائم کی حمایت جاری رہے گی یہ اعداد و شمار بھی بڑھتے رہیں گے۔