بحرین کی عدالت نے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے
بحرین کی عدالت نے جمعیت الوفاق الاسلامی کے سیکرٹیری جنرل شیخ علی سلمان کی نو سال کی قید کی سزا پر نظر ثانی کرنے کے لئے ان کا کیس اپیل کورٹ بھیج دیا ہے۔
بحرین کی اپیل کورٹ نے گزشتہ مہینے شیخ علی سلمان پر بے بنیاد الزامات لگائے تھے۔ آل خلیفہ نے شیخ علی سلمان پر آل خلیفہ حکومت کے خلاف سازش کرنے اور سول نافرمانی کے الزامات لگائے ہیں۔ آل خلیفہ نے ان الزامات کے تحت انہیں چار سال قید کی سزا سنائی تھی لیکن اس سزا کر بڑھا کر نو برس کردیا گیا۔ بحرین میں شیخ علی سلمان کی حمایت میں جاری مظاہروں اور عوام کی جانب سے ان کی سزا کے فیصلے کی مذمت، اسی سلسلے میں بیرونی دباؤ نیز انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے بحرین کی عدالت عالیہ نے پیر کے دن فیصلہ کیا کہ شیخ سلمان کے کیس پر نظر ثانی کرنے کے لئے وہ اسے اپیل کورٹ میں بھیجے گی۔ جمعیت الوفاق ملی کے سیکریٹری جنرل شیخ علی سلمان کو اٹھائیس دسمبر دو ہزار چودہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ آل خلیفہ کا یہ اقدام بحرین میں عوام کے شدید احتجاج اور مظاہروں کا سبب بنا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔ آل خلیفہ حکومت نے اپنی تشدد آمیز پالیسیاں جاری رکھتے ہوئے سترہ جولائی دوہزار سولہ کو جمعیت الوفاق ملی اسلامی کو کالعدم قرار دینے کا حکم دے دیا اور اس پر پابندی لگا دی۔
آل خلیفہ کی جانب سے بااثر انقلابی افراد کو کچلنے اور اہم اداروں پر پابندیاں لگانے کے اقدامات صرف شیخ علی سلمان اور جمعیت الوفاق اسلامی کی حد تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ آل خلیفہ کی گستاخی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس نے بحرینی قوم کے مذہبی رہنما بزرگ عالم دین آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی کی شہریت بھی سلب کرلی ہے اور انہیں الدراز علاقے میں ان کے گھر میں نظربند کردیا ہے۔ آل خلیفہ کی اس گستاخی سے بحرین کے عوام برہم ہوگئے اور انہوں نے بھرپور طرح سے اپنے علماء کی حمایت میں مظاہرے کرنے شروع کر دیئے اور آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کا گھر ان کی حمایت اور شیخ علی سلمان کی حمایت میں مظاہرے اور دھرنے دینے کا مرکز بن گیا۔
آل خلیفہ حکومت نے چودہ فروری دو ہزار گیارہ سے بحرینی عوام کی انقلابی تحریک کو کچلنا شروع کیا ہے اور اس نے مختلف روشوں سے سعودی عرب کے جارح فوجیوں کے ساتھ مل کر بحرینی قوم کی صدائے احتجاج کو خاموش کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی سخت سے سخت روشیں بھی ناکام ہوکر رہ گئیں اور مخالفین کی آواز اور بلند ہوتی گئی۔
احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالنا، سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو شہریت سے محروم کرنا، بااثر علماء کو قید میں ڈال دینا اور ان کی شہریت منسوخ کرنا ایسے تشدد آمیز اقدامات ہیں جو چودہ فروری سے آل خلیفہ نے اپنا رکھے ہیں۔
آل خلیفہ کی آہنی مکے کی پالیسی کے باوجود بحرینی قوم کا چودہ فروری کا انقلاب بدستور آگے بڑھ رہا ہے۔ تشدد آمیز پالیسیاں اور انقلابیوں نیز علماء کو قید کرنے کے ہتھکنڈوں سے یہ انقلاب اپنے راستے سے نہیں ہٹے گا۔ پیر کے دن بحرین کے سپریم کورٹ کی طرف سے شیخ علی سلمان کے کیس پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ جاری کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آل خلیفہ کی آہنی مکے کی پالیسیاں ہمیشہ سے ناکام رہی ہیں۔ ہر ہفتے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کے گھر کے باہر عوام کے مظاہروں اور دھرنوں سے بھی آل خلیفہ کی اس تشدد آمیز پالیسی کے ناکام ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ایسے حالات میں ملک کا سیاسی بحران حل کرنے کے لئے آل خلیفہ کے پاس مخالفین کے ساتھ گفتگو کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔ بحرین کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ آزادی بیان کا حق یقینی بنایا جائے، ملک میں عوام کے ووٹوں سے حکومت برسر اقتدار آئے، عوام اپنی سیاسی تقدیر کا فیصلہ خود کریں اور یہ مسائل ہر جمہوری ملک میں عوام کے ابتدائی ترین حقوق میں شمار ہوتے ہیں۔ ان حقوق کو پامال کرنا آل خلیفہ کی آمریت کی علامت ہے اور بحرینی عوام سیاسی گروہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھرپور طرح سے اس کے مخالف ہیں۔