متحدہ عرب امارات کے دعووں کا، اقوام متحدہ میں ایران کا ٹھوس جواب
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام خط میں، متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کئے گئے دعووں کے جواب میں لکھا ہے یہ بات مضحکہ خیز ہےکہ وہ حکومتیں جو خود عراق اور شام میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں اب وہی ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا رہی ہیں-
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے غلام علی خوشرو نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام متحدہ عرب امارات سمیت گیارہ عرب ممالک کے حالیہ خط کے جواب میں اپنے خط میں لکھا ہے کہ نہایت مضحکہ خیز ہے کہ عراق اور شام میں انتہاپسندی اور تکفیریت برآمد کرنے والے ممالک اب ایران پردہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا رہے ہیں- انہوں نے بان کی مون سے مطالبہ کیا ہے کہ اس مراسلے کو سرکاری دستاویز کے طور پر شائع کریں
غلام علی خوشرو نے لکھا ہے یہ بھی المیہ ہے کہ خط لکھنے والے جو ممالک ایران پر دوسرے ممالک میں مداخلت کا الزام لگا رہے ہیں ، وہی یمن کے بے گناہ عوام پر بمباری کررہے ہیں اور انھوں نے دوغلے پن کی انتہا کردی ہے- غلام علی خوشرو نے کہا کہ ان ممالک کی جانب سے ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا بے بنیاد الزام عائد کرنے کی وجہ بھی ان الزامات کی بچکانہ پیروی ہے جو دوسری طاقتیں تہران کی جانب سے فلسطینی عوام اوران کے کاز کی حمایت کی بنا پرلگاتی ہیں -
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بحرین کے امور میں ایران کی مداخلت کا الزام بھی بے بنیاد ہے کہا کہ بحرین کے خود مختار کمیشن کی رپورٹ میں بھی بحرین میں ایران کی جانب سے ہرطرح کی مداخلت کو پوری طرح مسترد کیا گیا ہے- غلام علی خوشرو نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے شامی فوجیوں کی، مشورے کی حد تک مدد بھی ، شام کی قانونی حکومت کی درخواست پر، بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں اور اقوام متحدہ کی اکیاونویں شق کے مطابق انجام پا رہی ہے- غلام علی خوشرو نے کہا کہ اگر ایران اور دیگر ممالک شامی حکومت کی مدد نہ کرتے تو خط پر دستخط کرنے والے ممالک کے حمایت یافتہ جرائم پیشہ تکفیری دہشت گرد گروہ، اب تک شام پر مسلط ہو چکے ہوتے اور پورے شام نیز مشرق وسطی کے دیگر علاقوں پر داعش کا جھنڈا لہرا چکے ہوتے-
بہت سے قرائن و شواہد سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودیوں سے وابستہ سیاسی حلقے، حقائق پر پردہ ڈالنے اور سعودی عرب کی پالیسیوں پر تنقیدوں سے فرار کے لئے، ایران کے خلاف پروپگنڈے کے ذریعے افراتفری پھیلانے میں مشغول ہیں- یہ پروپگینڈے اب جنرل اسمبلی جیسے عالمی اداروں میں بھی وسعت پا رہے ہیں- ان پروپگنڈوں کے پھیلنے اور اس میں شدت آنے کا ایک سبب ، موجودہ حالات میں علاقائی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں اور سعودی عرب پر بڑھتے ہوئے دباؤ سے لاحق تشویش کا ہونا ہے- اس وقت مغربی ایشیا میں سیاسی اور فوجی توازن درھم برھم ہو رہا ہے اور ریاض کے اتحادی، بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے ذریعے ایران کے خلاف سیکورٹی مسائل کھڑا کرنے کے درپے ہیں-
ان اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ غیرعلاقائی طاقتیں ، سعودی عرب کے ساتھ تعاون کے ذریعے اپنے اہداف اور مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں- علاقے کی موجودہ صورتحال اور دنیا میں بڑھتی ہوئی تشویش، در حقیقت امریکہ کے پرفریب رویوں کا نتیجہ ہے کہ جو آج امریکی حکمرانوں کے بھی حلق کا کانٹا بن چکی ہے- اس میں شک نہیں ہے کہ جب تک یہ دوہرا رویہ پایا جاتا رہے گا ، پر فریب پالیسیاں بھی جاری رہیں گی- ایسے ماحول میں بعض عرب ممالک، جو انسانی حقوق کی آشکارہ خلاف ورزی کر رہے ہیں اور مکمل تحفظ کے ساتھ عام شہریوں کے خلاف بربریت کے مرتکب ہو رہے ہیں ، وہی ایران کے خلاف الزام عائد کر رہے ہیں-
واضح رہے کہ ایران پر یہ الزامات صرف اس لئے لگائے جا رہےہیں کہ وہ اس خط کے بانیوں کے سیاسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکا ہے اور ان کے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے اوران اقدامات کی توجیہ کے لئے کوئی معتبر اور ٹھوس دلیل نہیں ہے- بعض عرب ملکوں کے خط میں جو دعوی کیا گیا ہے اس کے برخلاف ، ایران دیگر ملکوں میں مداخلت کا درپے نہیں ہے لیکن ان ہی ملکوں کی حمایت سے جو انتہاپسند گروہ وجود میں آئے ہیں ان کے خلاف بھرپور طریقے سے نبرد آزما ہے اور اسی چیز نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایران دہشت گرد گروہوں سے مقابلے میں سب سے زیادہ ثابت قدم ملک ہے-