سعودی ولیعہد کے جنگی جرائم کے خلاف، قانونی کاروائی کا مطالبہ
ہیومن رائٹس واچ کے ترجمان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمن کے خلاف سعودی عرب کے جنگی جرائم کے سبب، ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ترجمان احمد بن شمسی نے جمعے کو کہا کہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کے طور پر یمن کی جنگ میں پیش آنے والی تمام تر صورتحال کے ذمہ دار محمد بن سلمان ہیں۔ یمن میں سعودی عرب کے جرائم کے خلاف، مغرب کے انسانی حقوق کے اداروں، منجملہ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے کہ جو عام طور پر آل سعود کی جارحیت کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ رائے عامہ کے دباؤ کے تحت، یمن کے خلاف سعودی عرب کے جرائم کے سلسلے میں عالمی سطح پر ہونے والے روز افزوں اعتراضات اور احتجاجات کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے بھی یمن میں انسانی المیے کے اصل ذمہ دار کی حیثیت سے محمد بن سلمان کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سعودی عرب میں رونما ہونے والی صورتحال سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی تاریخ کے جوان ولیعہد کی حیثیت سے اپنے خوفناک اور بچکانہ افکار کے سبب، ملک کو تاریک مستقبل کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یقینا یمن میں خونریز دلدل کو وجود میں لانے والے سعودی ولیعہد ہی ہیں۔ بنیادی طورپر سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو، وہابیت کی نئی سوچ کا محرک قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہابیت کی یہ نئی سوچ ظلم و استبداد اور مداخلت پسندی پر مبنی ہونے کے ساتھ خطرناک ہے۔ ان ہی تبدیلیوں کے دائرے میں سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے محمد بن نائف کو اس ملک کی ولیعہدی کے عہدے سے ہٹا کر اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو وزیر دفاع کے ساتھ ہی سعودی ولیعہد بھی بنا دیا۔ اس طرح سے محمد بن سلمان نے آل سعود میں اقتدار کے ترقی کے زینے، چھلانگ لگا کراور بغاوت آمیز طریقے سے طے کرلئے۔ محمد بن سلمان میں اقتدار کی ہوس نے ان کے ظالمانہ اور سرکچلنے والےاقدامات میں اضافہ کردیا ہے اور انہوں نے علاقے میں یمن کے خلاف جنگ اور دیگر بحرانوں کو ہوا دی ہے۔
برطانیہ کے اخبار گارڈین نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ سعودی ولیعہد، یمن کے خونریز دلدل کو وجود میں لانے والے ہیں۔ گارڈین نے ایک رپورٹ میں ، اس سلسلے میں لکھا ہے کہ آیا محمد بن سلمان کی ولیعہدی اسے ایک اصلاح پسند شخصیت میں تبدیل کرسکے گی کہ جو سعودی عرب کو اکیسویں صدی میں منتقل کردے۔ اس اخبار کے مطابق گذشتہ چند مہینوں کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ بن سلمان کا اقتدار میں آنا ممکن ہے پورے علاقے کے غیر مستحکم ہونے کا باعث بن جائے۔ اس برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ سعودی ولیعہد کی کارکردگی سے ایسی آشکارہ علامات ظاہر ہو رہی ہیں جس سے اس ملک کا مستقبل اچھا نہ ہونے کی غمازی ہوتی ہے۔
محمد بن سلمان کے اقتدار میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی سعودی عرب کے حکومتی نظام نے مزید جارحانہ اور خوفناک رنگ اختیار کر لیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی بھی مداخلت پسندی پر مبنی ہے اور یہ ملک ماضی سے زیادہ جنگ افروزی اور مہم جویانہ پالیسیوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔
محمد بن سلمان پر اقتدار تک پہنچنے کے لئے اپنے حریفوں کو کنارے لگانے اور سعودی خاندان سے نکالے جانے کا الزام ہے۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے سیاسی میدان میں تبدیلیوں کی نئی لہرسے اس امرکی غمازی ہوتی ہے کہ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اس ملک میں اقتدار پر مکمل تسلط حاصل کرنے اور اس ملک کو ماضی سے زیادہ وہابیت اور فرقہ پسندی کی نہج پر گامزن کرنا چاہتے ہیں- ان تبدیلیوں نے انتہاپسندانہ اور مداخلت پسندانہ اقدامات میں شدت پیدا کی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کے غیر سنجیدہ اقدامات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے یمن میں بن سلمان کے جرائم کے سبب اسے سزا دیئے جانے کا مطالبہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ سعودی ولیعہد کی بلند پروازی اور جاہ طلبی کی آرزوؤں کا رنگ ماند پڑگیا ہے اور اس کی جگہ ڈراؤنے خوابوں نے لے لی ہے۔