Jan ۲۰, ۲۰۱۸ ۱۷:۳۵ Asia/Tehran
  • ایران اور جرمنی کے مذاکرات اور ٹرمپ کے ایٹمی معاہدے کے خلاف اقدامات

ایٹمی معاہدے کے بارے میں ایران اور یورپی ملکوں کے درمیان تبادلۂ خیال جاری رہنے کے ساتھ ہی ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور جرمنی کے نائب وزیر خارجہ والٹر لنڈنر نے ایٹمی معاہدے سے متعلق تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا اور معاہدے کے تمام فریقوں کی جانب سے اس پر عملدرآمد پر تاکید کی۔

در ایں اثنا اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نکی ہیلی نے جمعرات کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایک بیان میں ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں بے بنیاد دعوے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ بدستور ایٹمی معاہدے پر کاربند ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہ جنوری کو ایران کی ایٹمی پابندیوں کے معطل کئے جانے کے ساتھ ہی، ایٹمی معاہدے میں امریکہ کے باقی رہنے کے لئے، ایٹمی معاہدے میں تبدیلی، فوجی سائٹوں تک دسترسی، ایٹمی معاہدے کی پابندیوں کے دائمی ہونے اور ایران کے میزائل پروگرام کو کمزور کرنے جیسی چار شرطیں معین کی ہیں۔ 

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ غیر مصدقہ دعووں کی ایک سیریز کی شکل میں چند چیزوں کا ایک مجموعہ تیار کر رہا ہے تاکہ ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا پزل مکمل کرسکے۔  لیکن وائٹ ہاؤس کے حکام کو معلوم ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ایران کی جانب سے آشکارہ خلاف ورزی پر مبنی کوئی واضح دلیل اور ثبوت پیش کئے بغیر اس معاہدے کو نقصان پہنچانے سے، امریکہ کے لئے ایسے مسائل پیش آئیں گے جو یورپی یونین کی جانب سے تجارتی مخالفتوں سے بالاتر ہوں گے۔  

انٹرنیشنل اسٹڈیز سینٹر MIT کے ایگزگٹیو ڈائرکٹر اور ایران کے بین الاقوامی تعلقات میں ماہر تیرمن کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں شام میں ایران کی پالیسی یا انسانی حقوق جیسے دیگر مسائل کا اضافہ کیا جانا، میز پر موجود ایک ایسی اسٹریٹیجی ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کے سمجھوتے کو نابود کرنے کے مقصد سے ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جب نیوکنزرویٹو دھڑا اس طرح کی باتیں کرتا ہے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ اس روش کو  ایٹمی ہتھیاروں کی توسیع کی روک تھام کے لئے انجام پانے والی سفارتی کوششوں کو نابود کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ 

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جمعرات کو، مہلک ہتھیاروں کی توسیع پر پابندی کے موضوع پر منعقدہ  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ ماسکو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ بعض ملکوں کے سیاسی مفادات، ایٹمی معاہدے کے لئے خطرہ بنیں۔ لاوروف نے مزید کہا کہ ایٹمی معاہدے کے یورپی فریق نے بھی ایٹمی معاہدے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کے خطرات کو بخوبی درک کرلیا ہے اس لئے وہ ہرگز دوبارہ مذاکرات نہیں کریں گے۔ دوسری طرف سلامتی کونسل کی قراردار بائیس اکتیس سے عبور کرنا کہ جو ایٹمی معاہدے کی توثیق کے لئے منظور کی گئی ہے، امریکہ کے لئے ایک اور چیلنج شمار ہوتا ہے۔ 

علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد رضا ضیائی بیگدلی کہتے ہیں۔ "یہ قرارداد سلامتی کونسل کے منشور کی شق پچیس کی بنیاد پر جاری کی گئی ہے کہ جو سلامی کونسل کے اراکین پر نگراں ہے۔"

ایٹمی معاہدے پر نگراں واحد ادارہ ، جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے ہے جس نے اپنی تمام نو رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر پوری طرح عمل کیا ہے۔ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کی جانب سے، ایران کے توسط سے ایٹمی معاہدے کی مکمل پابندی کئے جانے کے تعلق سے نو رپورٹوں کے منظرعام پر آنے کے باوجود امریکہ بین الاقوامی اداروں پر دباؤ ڈال رہا ہے - امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایسی حالت میں ایران کے خلاف تخریبی پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں کہ تمام بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کا احترام کرنا تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔امریکی رویوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ ملک اپنی طاقت کے بل بوتے پر، ایٹمی معاہدے کے خلاف زور آزمائی کر رہا ہے۔ اور امریکہ کو اپنے ان رویوں کا عالمی سطح پر جواب دہ ہونا چاہئے۔

ٹیگس