شام کے شہر عفرین میں ترکی کے اقدامات پر دمشق کا ردعمل
شام کی وزارت خارجہ نے ہفتے کی رات شمالی شام کے شہر عفرین پر ترکی کے حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ترکی کا یہ اقدام شام کی قومی حاکمیت اور ارضی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔
ترکی نے اس سے قبل بھی شمالی شام میں سپرفرات نامی فوجی کاروائی انجام دی تھی ۔ ترک حکام کا خیال ہے کہ کرد گروہ منجملہ سیرین کردش ڈیموکریٹک یونین پارٹی امریکہ کی حمایت سے، اور ترکی میں کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے ، شمالی شام اور ترکی کی جنوبی سرحدوں پر، آزاد و خودمختار علاقہ یا ملک تشکیل دینے کے درپے ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب نام نہاد داعش مخالف امریکی اتحاد نے یہ اعلان کیا کہ شامی کرد گروہوں کے ساتھ مل کر " سرحدی سیکورٹی فورس " سے موسوم نئی فورس تشکیل دی جائے گی کہ جس میں تیس ہزار فوجی شامل ہوں گے۔ اس سلسلے میں عرب کے ایک سیاسی ماہر کا خیال ہے کہ شام میں امریکہ اور ترکی کی رقابت میں شدت آگئی ہے۔ مکرم خوری نے شام میں جنگ کی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور ترکی شام میں اپنی مخصوص پالیسیاں نافذ کرنے میں کوشاں ہیں کہ جن میں سے بعض میں تضاد بھی پایا جاتاہے۔
دمشق میں فوجی ماہر ھیثم حسون نے شمالی شام میں امریکہ اور ترکی کی مداخلتوں کے بارے میں العالم ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ شام میں امریکہ اور ترکی کی پالیسی اور اسٹریٹیجی تبدیل ہوئی ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب داعش ان کے لئے شام میں کچھ نہیں کرسکتے اس لئے اب امریکہ اور ترکی خود ہی شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں براہ راست کاروائی کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور ترکی کی یہ مداخلتیں، ان کے مخصوص مفادات کےدائرے میں انجام پا رہی ہیں کہ جن میں سے بعض میں تضاد پایا جاتا ہے اور اسی سبب سے ان کے درمیان رقابت بھی پائی جاتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات، شام میں مداخلت پسند حکومتوں کے تباہ کن اقدامات اور خطروں میں شدت کا سبب رہے ہیں۔
شام میں ترکی کے ساتھ رقابت کے امریکی اہداف کے تعلق سے، مختلف سناریو پیش کئے جا رہے ہیں۔ پہلا سناریو کہ جو امریکہ کا اصلی ہدف تصور کیا جا سکتا ہے، ترکی پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ اس ملک سے مراعات حاصل کرے۔ کیوں کہ ترکی ، گذشتہ چند برسوں سے روس اور ایران سے ہم آہنگ پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور امریکہ اس کوشش میں ہے کہ مختلف ہتھکنڈوں سے انقرہ کو ایک بار پھر اپنا ہم فکر و ہم خیال بنائے۔ دوسرا سناریو یہ ہے کہ اگر چہ امریکیوں نے بظاہرعراقی کردستان کی علیحدگی و خودمختاری کی مخالفت کی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ شامی کردستان کی علیحدگی کی سمت آگے بڑھیں گے اور شام سے کردستان کی علیحدگی کے مسئلے کا جائزہ لیں گے تاکہ شام کی تقسیم کا مسئلہ بھی آگے بڑھ سکے۔
بہرحال شام میں داعش کے خاتمے کے بعد امریکہ اور ترکی کے مشکوک فوجی اقدامات، شام کی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھائے جانے کے لئے انجام پا رہے ہیں ۔ شام میں مغربی ملکوں اور سعودی عرب جیسی علاقے کی مداخلت پسند حکومتوں کی حامی مختلف دہشت گرد اور تکفیری گروہوں کے مقابلے میں شامی فوج اور حکومت کی کامیابیوں نے شام میں امن کی برقراری کے لئے حالات فراہم کئے ہیں اور یہی چیز مغربی اور ترکی جیسی مہم جو حکومتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے اس لئے کہ اب ان کے پاس شام میں اپنی کاروائیاں جاری رکھنے کے لئے کوئی بہانہ نہیں رہ گیا ہے۔ اسی سب سے امریکہ اور ترکی مختلف ہتھکنڈوں سے شام کے لئے نئے سازشی منصوبے تیار کر رہے ہیں تاکہ شام میں اپنے مفادات حاصل کرسکیں ۔
شام کے عوام اور حکومت کے نقطہ نگاہ سے شام کے لئے ، دہشت گردوں کے خطرے اور ترکی اور امریکہ جیسے ملکوں کے جارحانہ اقدامات ، ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ شام میں ترکی کے فوجی اقدامات اور اس ملک کی ارضی حاکمیت کی خلاف ورزی ایسے میں کی جا رہی ہے کہ بیان ماسکو یعنی ایران ، روس اور ترکی کے مشترکہ بیان اور آستانہ اجلاسوں کی رو سے، ترکی شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ اور احترام کا پابند ہے۔