Jan ۲۱, ۲۰۱۸ ۱۷:۰۲ Asia/Tehran
  •  عالم اسلام کا ٹرمپ مخالف احتجاج اور امریکی نائب صدر کا دورۂ مشرق وسطی

امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس، بیت المقدس کے تعلق سے امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ فیصلے پر مسلمانوں، عربوں اور فلسطینیوں میں پائے جانے والے غم وغصے اور احتجاجات کے باوجود، مشرق وسطی کے دورے پر ہیں۔

پینس اس دورے میں مصر، اردن اور مقبوضہ فلسطین جائیں گے تاکہ ایک بار پھر فلسطین کے تعلق سے امریکی صدر کے متنازعہ فیصلوں کے بارے میں اپنی حمایت کا اعلان کریں۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے دو فیصلے کرکے، ملت فلسطین کے ساتھ اپنی دشمنی اور مخالفت کو آشکارہ کردیا ہے۔ پہلے فیصلے میں امریکی صدر نے عالمی قوانین کی مخالفت میں قدم اٹھاتے ہوئے قدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے سرکاری طور پر تسلیم کیا اور اعلان کیا کہ امریکی سفارتخانے کو وہ اس مقبوضہ شہر میں منتقل کریں گے۔ اور پھر دوسرے فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کو چھ کروڑ ڈالر جاری کردیے ہیں تاہم مزید چھ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر روکنے کا اعلان کیا ہے-  اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترش نے امداد کی کٹوتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارے کی جانب سے پناہ گزینوں کو فراہم کی جانے والی خدمات بہت اہمیت رکھتی ہیں اور امداد کی کٹوتی کی صورت میں ادارے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ٹرمپ کے ان دونوں فیصلوں کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں اور فلسطین کی اتھارٹی کونسل نے بھی مذمت کی ہے۔ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی الگ الگ نشستوں میں ، اقوام عالم نے ایک آواز ہوکر قدس کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے بھی اس طرح کے اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی حکام کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطے کو ختم کر رہے ہیں۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا ہے کہ مائیک پینس کے استقبال یا اس کے ساتھ کسی بھی سطح پر ملاقات کا کوئی جواز نہیں ہے خاص طور پر اس کے اس حالیہ بیان کے بعد جس میں اس نے قدس کے مسئلے کو ختم کرنے اور اسے صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی بات کہی ہے۔ 

فلسطینیوں نے اسی طرح اعلان کیا ہے کہ اب اس کے بعد سے وہ امریکہ کو، اسرائیلیوں کے ساتھ مذاکرات میں ثالث کی حیثیت سے قبول نہیں کریں گے۔ البتہ برسوں قبل سے ہی یہ واضح تھا کہ امریکیوں نے،  اسرائیل اور فلسطین کے درمیان نام نہاد امن مذاکرات میں، ثالثی کا کردار ادا ہی نہیں کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مائیک پینس نے صراحتا کہا تھا کہ امریکہ ، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ثالثی نہیں کرے گا کیوں کہ جو ثالثی کرتا ہے وہ مذاکرات کے کسی فریق کی حمایت نہیں کرسکتا جبکہ امریکہ اسرائیل کا حامی ملک شمار ہوتا ہے۔ موجودہ امریکی حکومت، آشکارہ طور پراسرائیل سے اپنی حمایت کا اظہار، اور فلسطینوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر ٹرمپ حکومت نے عالمی قوانین اورمطالبات کو نظرانداز کرتے ہوئے، مقبوضہ فلسطین میں یہودی کالونیوں کی تعمیر کی حمایت کی ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ ٹرمپ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ فلسطینیوں کو اپنی امنگوں اور اہداف سے چشم پوشی پر مجبور کرے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام کہ جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو، اسی طرح پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور معینہ سرحدوں کے ساتھ ایک ملک کی تشکیل کے منصوبوں کو خاک میں ملا دے۔ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی ابھی تک فلسطین میں کسی بھی دھڑے نے حمایت یا موافقت نہیں کی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ مائیک پینس کے دورۂ مغربی ایشیا کا ما حصل ، صیہونی حکومت کے لئے واشنگٹن کی دوبارہ حمایت کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا       

ٹیگس