ایران ، روس اور ترکی کے درمیان مذاکرات
شام کی صورتحال حساس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ اور نومبر 2017 میں سوچی میں ایران ،روس اور ترکی کے سربراہوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دائرے میں، یہ تینوں ممالک تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور اور سنیئر مذاکرات کار حسین جابری انصاری نے ماسکو میں روسی صدر کے خصوصی نمائندے "الیگزنڈر لاورنتیف" اور ترکی کے نائب وزیر خارجہ "سدات اونال" کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ سوچی کانفرنس میں شرکت کے لئے شام کے مخالفین کو رغبت دلایا جانا ، اس اجلاس کا ایک محور تھا ۔ سیرین نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس دس دنوں سے بھی کم عرصے میں یعنی انتیس اور تیس جنوری کو سوچی میں ہونا طے پائی ہے۔
لیکن ایسے میں کہ جب شام کے بحران کے حل کے تعلق سے مذاکرات کا عمل جاری ہے، شام میں بعض دھڑے تشویش پھیلا رہے ہیں۔ ان ہی تشویشوں میں سے ایک، شمالی شام کی صورتحال کو کشیدہ اور پرتشدد ظاہر کرنا ہے۔ یعنی اسی جگہ، جہاں پر کچھ دنوں قبل نام نہاد داعش مخالف امریکی اتحاد نے اعلان کیا تھا کہ شامی کرد گروہوں کے ساتھ مل کر نئی فورس تشکیل دی جائے گی۔ امریکہ کے اس فیصلے پر انقرہ نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ ترکی کی فوج نے بھی ہفتے کے روز زیتون کی شاخ سے موسوم ان مسلح افراد کے خلاف کاروائی شروع کردی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی شام میں نئی سرحدی سیکورٹی فورس کی تشکیل پر مبنی امریکی حکام کے اعلان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے دیگر ملکوں کے داخلی امور میں کھلی مداخلت کا مصداق قرار دیا ہے۔ ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے ایسے وقت میں اس فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے کہ شامی فوج اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گرد گروہوں کے مقابلے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران، روس اور ترکی کےساتھ مل کر مذاکرات کے ذریعے شام میں کشیدگی سے عاری علاقوں کے قیام اور اس ملک کا بحران حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سلسلے میں کافی پیشرفت اور نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ ترجمان وزارت خارجہ بہرام قاسمی نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ، علاقے میں اپنی تباہ کن اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں سے باز آجائے اور شام سے فوری طور پر اپنے فوجیوں کو واپس بلالے اور شامی عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین جابری انصاری نے بھی کہا کہ شام کی سرزمین پر کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی ممکن ہے سوچی کی قومی کانفرنس پر اثرانداز ہوجائے۔ اس سے قبل شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے کہا تھا کہ امریکہ، شام میں ڈیموکریٹک فورس کے نام سے نئے داعشی گروہ کی حمایت کر رہا ہے۔ روس کی وزارت خارجہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ شام میں امریکہ کا غیرذمہ دارانہ اقدام اس امن و صلح کے عمل کو سست کردے گا کہ جس کا حصہ کرد بھی تھے۔
ایسی علامات پائی جاتی ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن برسوں سے شامی مخالفین کی حمایت کر رہا ہے اور اب وہ نہیں چاہتا کہ اتنی آسانی سے شام کے صدر بشار اسد کی برطرفی کے مسئلے سے کنارہ کش ہوجائے۔ یہ مقصد امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے حالیہ بیانات میں پوشیدہ ہے کہ جس میں انہوں نے کہا کہ ان فورسیز کو نامعلوم مدت تک تعینات کرنے کا مقصد امن و استحکام کے قیام میں مدد کرنا ہے تاکہ شامی عوام بشار اسد کو اقتدار سے ہٹا سکیں۔ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ امریکہ، شام سے اپنی فوجیں واپس نہیں بلائے گا اور واشنگٹن اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گا کہ شام میں بھی وہی غلطی دوہراہی جائے جو امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد عراق میں ہوئی تھی۔
امریکہ شام میں اپنی فوجی مداخلت جاری رکھنے پر ایسے وقت میں اصرار کر رہا ہے جب عالمی قوانین کے تحت دنیا کا کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک میں فوجی طاقت کا استعمال صرف اسی صورت میں کر سکتا ہے جب اس ملک کی قانونی حکومت نے اسے ایسا کرنے کی اجازت دی ہو یا اقوام متحدہ نے اپنے منشور کی ساتویں شق کے تحت ایسا کرنے کا حکم دیا ہو یا کسی ملک کی جارحیت کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنا مقصود ہو جبکہ شام میں مذکورہ شرائط میں سے کوئی بھی شرط نہیں پائی جاتی۔
واشنگٹن میں مشرق وسطی انسٹی ٹیوٹ کے نائب سربراہ "پال سالم" نے پولیٹیکو نامی جریدے میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس وقت مکمل طور پر یہ بات واضح ہوگئی ہےکہ شام میں، دمشق ، ماسکو اور تہران کے محاذ کو کامیابی ملی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو شام میں ولادیمیر پوتین سے شکست کھانی پڑی ہے۔ اسی سبب سے امریکہ اس وقت صورتحال کو تبدیل کرنے اور ایران اور روس کو شام کے بحران کے سیاسی حل کی کوششوں سے دور کرنے کے درپے ہے اور یہ ہدف تل ابیب اور ریاض کے لئے اسٹریٹیجک ہدف اور مقصد شمار ہوتا ہے۔