شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائیوں پر موگرینی کی شدید تشویش
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے پیر کے روز کہا ہے کہ شام کے شہر عفرین میں اس ملک کے کردوں کے ٹھکانوں پر ترکی کے حملے سے انہیں سخت تشویش لاحق ہے۔
موگرینی اپنی تشویش کی دو وجوہات بتائیں ایک تو انسانی مسائل اور یہ کہ عام شہری فوجی کارروائیوں سے متاثر نہ ہوں اور دوسرے یہ کہ یہ حملے ممکن ہے جنیوا مذاکرات پر اثرانداز ہوجائیں۔ ترکی کی سرحدوں اور علاقے میں امن و استحکام کی تقویت اور اسی طرح شام کے شہر عفرین میں مسلح کرد فورس کا قلع قمع کرنے کے بہانے ترکی نے ہفتے کے روز زیتون کی شاخ کے نام سے فوجی کارروائی شروع کی ہے۔
دوسری جانب شام کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گیا۔ شام میں ترکی کی فوجی کارروائی کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ایک مشترکہ بیان جاری کئے جانے کے ساتھ ختم ہو گیا۔ فرانس کی اپیل پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا یہ اجلاس شمالی شام میں عفرین کے علاقے کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل پایا تاہم عفرین میں ترکی کی فوجی کارروائی کے بارے میں بیان جاری نہیں ہوا۔
جرمنی کی پارلیمنٹ میں بائیں بازو کے دھڑے کی لیڈر سارا واگن کنشت "Sahra Wagenknecht نے شمالی شام پر ترکی کے حملے کو جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔ شمالی شام کے علاقے عفرین میں ترکی کی اس فوجی کارروائی کے بعد شام کی وزارت خارجہ نے ترکی کے فوجی اقدام کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ ترکی کا یہ فوجی اقدام شام کے قومی اقتدار اعلی کی خلاف ورزی ہے - ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ شمالی شام کے عفرین شہر پر ترکی کا حملہ، کہ جو ترکوں کے بقول تیس ہزار افواج پر مشتمل ایک فوج تشکیل دینے کے ردعمل میں ہے، مستقبل قریب میں یورپی یونین اور انقرہ کے درمیان ایک اختلافی مسئلے میں تبدیل ہوجائے گا۔ یورپی یونین کے بعض ممالک نے گذشتہ چند برسوں میں داعش مخالف نام نہاد اتحاد کے عنوان سے امریکہ کے ساتھ مل کر شام میں فوجی اقدامات انجام دیئے ہیں۔
موگرینی نے کہا کہ شام میں کوئی بھی فوجی سرگرمی داعش کے خلاف ہونی چاہئے جبکہ شام کے شہر عفرین میں جاری ترکی کی فوجی کارروائی میں آشکارہ طور پر کرد ملیشیا کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ عفرین میں ترکی کے فوجی اقدام کی مخالفت میں یورپی یونین کا موجودہ موقف، شام کے بحران کے دیگر فریقوں کے موقف سے ہمنوا ہونے کے ساتھ ہی کچھ وجوہات کی بناء پر مختلف ہے۔ البتہ شام کے بحران میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے روس کا خیال ہے کہ شمالی شام کی حالیہ کشیدگی، درحقیقت شام میں امریکہ کی غیر قانونی فوجی موجودگی جاری رہنے اور اپنا کردار ادا کرتے رہنے کے لئے واشنگٹن کے منصوبوں کا ماحصل ہے۔ روسی تجزیہ نگار ویچسلا ماتازوف کا خیال ہے کہ روس شام میں نیا محاذ کھولے جانے کی حمایت نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ہی شمالی شام کے بحران کے سلسلے میں یورپی یونین کا نقطہ نظر بظاہر کچھ اور ہے۔
موگرینی کے نقطہ نگاہ سے، شام کے بحران کے تعلق سے سیاسی راہ حل کو اس وقت ترجیح حاصل ہے اور شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائیاں، اس بحران کے فریقوں کے درمیان کہ جو جنیوا مذاکرات میں مشارکت کے بارے میں کم و بیش اتفاق رائے رکھتے ہیں، شدید اختلاف وجود میں آنے پر منتج ہوسکتی ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیش آتا ہے کہ کیوں یورپی یونین نے شام میں امریکی منصوبوں منجملہ تیس ہزار افراد پر مشتمل فوج کی تشکیل پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ؟ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ یورپی یونین کے بعض اہم رکن ملکوں خاص طور پر فرانس اور برطانیہ نے شام میں دہشت گردوں کی حمایت کرکے شام کے بحران اور اس ملک میں داخلی جنگ چھیڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔