بغداد اور اربیل کے درمیان کشیدگی کم ہونے کی علامات
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی اور کردستان کی مقامی حکومت کے سربراہ نیچروان بارزانی کے تازہ ترین اظہار خیال سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ اربیل بغداد کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے درپے ہے۔
کردستان علاقے کے سابق سربراہ مسعود بارزانی کے توسط سے اس علاقے کو عراق سے جدا کرنے کے سلسلے میں کرائے جانے والے ریفرنڈم کے سبب ، نہ صرف وہ اقتدار سے دور ہوگئے بلکہ بغداد اور اربیل کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اگرچہ کردستان کی مقامی حکومت کے سربراہ نیچروان بارزانی بھی ، ریفرنڈم کرانے میں مسعود بارزانی کے ہم فکر و ہم نوا تھے اور وہ بھی بغداد کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کا باعث تھے لیکن نیچروان کو، جو اس وقت اربیل کے حاکم ہیں، مسعود بارزانی کے بارہ سالہ دور اقتدار میں پیدا ہونے والے اندرونی مسائل و مشکلات اور خاص طور پر بغداد کے ساتھ اربیل کی کشیدگی، بطور ورثہ ملی ہے-
مشرق وسطی کے مسائل کے ماہر صباح زنگنہ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ کردستان کی اقتصادی صورتحال بہت زیادہ افسوسناک ہے اور ملازمین کو ایک مدت سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ کردستان میں مالی مسائل و مشکلات اور اشیاء کی کمی کا احساس ہو رہا ہے، اور بہت سی تجارتی اور اقتصادی کمپنیاں کردستان چھوڑ کر جا رہی ہیں۔
عراقی کردستان کے علاقے سے مسعود بارزانی کو اقتدار سے کنارہ کشی کئے ہوئے تین ماہ کا عرصہ گذرجانے کے بعد اب ، عراق کے بنیادی آئین کے دائرے میں قدم بڑھانے کے لئے اربیل میں، دلچسپی کے کچھ آثار اور علامات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں عراقی کردستان کے علاقے کے سربراہ نیچروان بارزانی نے ڈیووس اجلاس کے موقع پر عراقی وزیر اعظم سے ملاقات کی اور دونوں فریق نے اس امر پر اتفاق کیا کہ آئندہ ہفتے سے وہ تیل، ایئرپورٹس، اور ملازمین کی تنخواہوں کے بارے میں اختلافات کے حل کے لئے سنجیدہ گفتگو کا آغاز کریں گے۔اربیل اور بغداد کے حکام کے دوطرفہ دورے اور اسی طرح نیچروان بارزانی کا دورہ تہران اور اربیل اور بغداد کے درمیان تہران کی ثالثی کی درخواست بھی، دیگر علامات ہیں۔
در ایں اثنا عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے جمعرات کو ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ کردستان کی مقامی حکومت نے تیل کے ذخائر کو مرکزی حکومت کی تحویل میں دینے پر اتفاق کیا ہے ۔عراقی وزیراعظم نے کہا کہ بغداد اور اربیل کے پاس مختلف اختلافات کو حل کرنے کا موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم نے تیل کے مسئلہ کو حل کرلیا اسی طرح دوسرے مسائل بھی حل کرسکتے ہیں۔
کردستان کی مقامی پارلیمنٹ کے رکن عبدالرحمن علی رضا کا خیال ہے کہ بغداد اور اربیل کے درمیان کشیدگی جاری رہنے سے کردستان میں تجارتی سرگرمیوں کے عمل میں کمی آئی ہے جس کے باعث کردستان کی معاشی صورتحال پر طویل المدت اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی بناء پر نیچروان نے کردستان علاقے کے ایئرپورٹس، اور ملازمین کی تنخواہوں جیسے مسائل کو بغداد حکومت کے ساتھ مذاکرات میں سرفہرست قرار دیا ہے۔
عراقی پارلیمنٹ کے انتخابات کا وقت قریب ہونے کے ساتھ ہی کہ جو آئندہ اپریل میں ہونے والے ہیں، کردستان کی مقامی حکومت میں بغداد کے ساتھ کشیدگی اور اختلافات کم کرنے کا رجحان پیدا ہوا ہے کیوں کہ اربیل نہیں چاہتا کہ ایک طرف عراقی پارلیمنٹ میں کردوں کی پوزیشن کمزور ہو، اور دوسری جانب عراقی پارلمینٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی کی نشستیں، حریف کرد پارٹیوں کو مل جائیں۔
حکومت عراق بھی اربیل کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے کیوں کہ اس طرح وہ ایک طرف تو عراق کے آئین کے دائرے میں قدم بڑھانے اور کام کرنے پر اسے قائل کرسکے گی اور دوسری طرف عراقی پارلیمنٹ میں اربیل کی بازگشت کے لئے حالات فراہم ہوجائیں گے۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ابھی اربیل اور بغداد کے درمیان تعلقات کی بحالی عملی شکل اختیار نہیں کرسکی ہے۔ لیکن ابھی جبکہ عراقی پارلیمنٹ کے انتخابات میں تین ماہ کا عرصہ باقی ہے فریقین کی کوشش ہوگی کہ میڈیا کے شوروغل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے درمیان کشیدگی کم کریں اور پرامن فضا قائم کرنے کی جانب قدم بڑھائیں۔