علاقے کے حقائق کو تبدیل کرنے کی منحوس مثلث کی کوششیں
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے امریکہ اور صیہونی حکومت کی ایرانو فوبیا پالیسی کے ساتھ ہی، سوئیٹرزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں دعوی کیا ہے کہ ایران فرقہ وارانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔
ساتھ ہی برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جمعرات کو ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پرملاقات کی جس میں انہوں نے ، بزعم خود علاقے کو غیر مستحکم کرنے والی ایران کی سرگرمیوں منجملہ بیلسٹک میزائل کی تیاری کا مقابلہ کرنے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔ اس درمیان صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو نے بھی ڈیووس اجلاس میں دعوی کیا ہے کہ ان کے لئے سب سے اہمیت کی حامل جو بات ہے یہ ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی سے روکنا ہے اور ان کے لئے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت کی جائے یا اسے منسوخ کردیا جائے-
علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی اور کردار کے خلاف امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل کے پروپیگنڈے اور سازشیں سب پر عیاں ہوچکی ہیں لیکن ان کا کوئی بھی ہتھکنڈہ علاقے کے حقائق کو ان کے حق میں تبدیل نہیں کرسکتا۔ ایک ایسا ملک کہ جس نے حقیقی طور پر دہشت گردی سے مقابلہ کیا اور اس امر میں مدد کی کہ عراق اور شام سے داعش کا صفایا ہوجائے وہ ملک اسلامی جمہوریہ ایران کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل کے منحوس اور فتنہ گر مثلث کی تشہیراتی یلغار کے ذریعے، مغربی ایشیاء کے علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے تعمیری اور مستحکم کردار کو حقائق کے برخلاف پیش کیا جا رہا ہے۔
جبکہ سب کو اچھی طرح معلوم ہےکہ داعش کو وجود میں لانے اور علاقے کو بحران سے دوچار کرنے میں سعودی وہابیت کی فکر، امریکی ہتھیار اور دہشت گردوں کے لئے صیہونی حکومت کی حمایت کا سایہ، ناقابل انکار حقائق ہیں، اور ایرانو فوبیا کے مسئلے کو ہوا دینے سے دہشت گردوں کے شکست خوردہ حامیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اسی سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کے بھونپو، اور ان کی پروپیگنڈہ مشنریاں، خواہ کتنا ہی حقائق کو الٹا بناکر کیوں نہ پیش کریں اور سعودی عرب ، ایران کو چاہے جتنا بدنام کرے یا امریکہ جتنی بھی کوشش کر ڈالے تاکہ داعش کی شکست کا سہرا اپنا سر باندھے، مگر وہ حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتا
مغربی ایشیاء کے علاقے میں داعش کی سازشوں کی ناکامی نے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کے محور کی طاقت کوبرملا کردیا ہے۔ عراق اور شام جیسی سرزمین پر داعش کی شکست کی اہمیت اس وقت سمجھ میں آئی جب امریکیوں نے یہ اعلان کیا کہ داعش کے خاتمے کے لئے تقریبا کم از کم تیس سال درکار ہے۔ اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اسرائیل اور سعودی عرب کے تعاون سے مغربی ایشیاء کے علاقے میں امریکی اسٹریٹیجی کو آگے بڑھانے کے لئے داعش کی پشت پناہی اور ڈکٹیٹ کئے جانے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جس دن سعودی وزیر خارجہ اور امریکی صدر نے ڈیووس میں اپنے زعم ناقص میں علاقے میں ایران کے کردار کو تخریبی قرار دیا اسی وقت عراقی وزیر اعظم نے امریکی چینل سی این این کے ساتھ انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ ریاض یہ کہتا ہے کہ ایران علاقے میں منفی کردار ادا کر رہا ہے کہا کہ اس طرح کا نظریہ قابل قبول نہیں ہے اور انہوں نے داعش کی شکست میں حکومت عراق کی مدد کرنے پر ایران کے کردار کی تعریف کی۔
درحقیقت سعودی عرب، علاقے پر مسلط کردہ دہشت گردی کو تشکیل دینے والی زنجیر کا اصلی حلقہ شمارہوتا ہے۔ البتہ ان جھوٹے دعووں نے ان کو بےجا فخر سے دوچار کردیا ہے یہاں تک وہ اپنے آپ کو سیکورٹی اور جمہوریت کا ایک ماڈل سمجھتے ہیں۔ ریاض ، ایران کے خلاف جو الزامات عائد کر رہا ہے اس سے امریکہ ، اسرائیل اور وہ افراد غلط اور ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ جو اس گندے سیاسی اور سیکورٹی کے کھیل میں شامل ہوکر اپنے ناجائز مفادات کی جستجو میں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان الزام تراشیوں کا نتیجہ ، کیا علاقے میں امن و سلامتی کی بازگشت ہے؟ جبکہ سعودی عرب کی تسلط پسندی کے نتیجے میں صرف قتل کا بازار گرم ہے اور اس کی واضح ترین مثال یمن کی جنگ ہے۔