ڈیووس، نفرت پھیلانے والے سیاستدانوں پر پابندی عائد کرے
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات اور علاقے کے بعض عرب ملکوں کے حکام کی جانب سے ان کی ہاں میں ہاں ملانے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سال ڈیوس کے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں تہران کے خلاف نئی سازشیں رچی گئی ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف بے بنیاد دعؤوں کو دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ ہم ایسی دنیا کے خواہاں ہیں جو دہشتگردی اور باغی حکومتوں سے عاری ہو- ٹرمپ نے دعوی کیا کہ ہم سب کی سیکورٹی کا انحصار اس بات پر ہے کہ دفاعی امورمیں اپنا حصہ ادا کریں انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روک دیں۔ ٹرمپ کے یہ بیانات ، سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر کی جانب سے ایک بار پھر یہ الزام عائد کرنے کے بعد سامنے آیا ہے کہ ایران ، علاقے میں اپنی تاریخی شہنشاہیت کو دوبارہ احیاء کرنا چاہتا ہے - ہرطرح کے تاریخی دستاویزات اور سیاسی و قانونی شواہد سے عاری الجبیر کے یہ بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاض ایک بار پھر ایرانوفوبیا کا نہایت کمزور و مبہم سیناریو آگے بڑھانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں بعض مغربی حکومتیں بھی اس کے ساتھ ہیں- سعودی حکومت کا ساتھ دینے والوں میں ایک صیہونی حکومت بھی ہے کہ جو ایران کو دہشتگردی کا حامی کہتی ہے جبکہ علاقے سے داعش نام کی بلاء ایرانی مجاہدین کی جاں فشانی سے دور ہوئی۔
ان حالات میں واضح ہے کہ ڈیووس ، حکومتوں کے ایک دوسرے سے قریب آنے اور عالمی اقتصاد کی ترقی کا مقام بننے کے بجائے سرکش و باغی حکومتوں کے نمائندوں کی طرف سے دیگر حکومتوں پر دہشتگردی کا الزام لگانے کا ٹریبیون بن گیا ہے اور اس حربے کو اپنی مداخلتوں کو قانونی جواز کے لئے استعمال کررہی ہے- واشنگٹن اور اس کے اتحادی کہ جنھیں جب بھی کوئی ٹریبیون ملتا ہے، وہ اسے تہران کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ مغربی ایشیا میں واحد ذمہ دار کیرکٹر کہ جو دہشتگردی کے خلاف لڑ سکتا ہے، ایران ہے۔ ان کے لئے بخوبی واضح ہے کہ تہران نے ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کرکے اور رضاکارانہ طور پر ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے شرائط قبول کر کے اپنے ایٹمی پروگرام کے خلاف الزام تراشی کے تمام راستوں کو بند کردیا ہے اس کے باوجود ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کرنے والے ایک ملک کا صدر ایک بار پھرایران کے خلاف ایٹمی دعوے کی تکرار کرتا ہے تاکہ ثابت کرے کہ اصولی طور پر امریکہ کے لئے ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ ایران کے سیاسی نظام کی ماہیت ہی ایک چیلنج ہے-
تہران کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کے دعوے اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی پالیسی و سیاست کس طرح منحرف ہوگئی ہے اور ڈیووس کس طرح ، دوسروں پر الزام تراشی کی جگہ میں تبدیل ہوگیا ہے - ایک سرکش حکومت کا صدر دیگر حکومتوں کو سرکش و باغی کہتا ہے اور ایک ایسے ملک کا وزیرخارجہ جو اپنے پڑوسی ملک پر بموں اور میزائلوں کی بارش کررہا ہے ، ایران پر الزام لگاتا ہے کہ وہ شہنشاہیت کو احیاء کرنے کی کوشش کررہا ہے-
عالمی رائے عامہ ڈیووس کے عالمی فورم سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنی عالمی ترقی و پیشرفت کے لئے منصوبہ بندی کرے - اس عالم میں چند نادان سیاستدانوں کے غیرسفارتی اور دشمنانہ دعوے اس بات کا باعث بن سکتے ہیں کہ متمدن دنیا عالمی سطح پر ڈیووس کی ذمہ داریوں پرنظرثانی کرے - ایسا نظرآتا ہے کہ بہترین راستہ یہ ہے کہ ڈیووس ، کینہ و نفرت پھیلانے والے سیاستدانوں کا بائیکاٹ کرے گا اور آئندہ اجلاس میں انھیں شرکت نہ کرنے دے گا۔ اگر اس طرح کی پالیسی اختیار نہ کی گئی تو ڈیووس کا بھی وہی حال ہوگا جو دیگر عالمی اجلاسوں کا ہوا ہے- نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ مختلف ممالک کے عوامی ادارے ، اس طرح کے اجلاسوں کو امریکہ جیسی مشکل ساز حکومتوں کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے شر سے محفوظ رکھنے کا مطالبہ کریں-