اردوغان کا دہشتگردی کے خلاف لڑنے کا وعدہ
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ انقرہ ، شام کے شہر عفرین میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کو اس ملک کے دیگر علاقوں تک بھی پھیلائے گا تاکہ ان علاقوں کو دہشتگردوں کے وجود سے پوری طرح پاک کردے۔
رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ترک فوج ، مشرقی عفرین سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع منبج سے بھی دہشتگردوں کا خاتمہ کردے گی کہ جہاں عوامی مدافع دستے موجود ہیں- درحقیقت ترکی کے صدر کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ عفرین میں فوج کی مکمل تعیناتی کے بعد ترک فوجیوں کو منبج روانہ کیا جائے گا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے قبل رجب طیب اردوغان نے کہا تھا کہ ترکی کی فوج زیتون آپریشن کے خاتمے کے بعد عفرین سے فورا نکل جائے گی -
رجب طیب اردوغان کے بیانات سے ترکی کے صدر کی زیادہ خواہی اور شام کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی موجودگی کی کوششوں کا پتہ چلتا ہے- انقرہ حکام کی تمام توجیہات کے باوجود، دمشق کی قانونی حکومت نے شامی زمینوں کے غاصبوں کی مخالفت کا اعلان کیا ہے- شام کی وزارت خارجہ نے عفرین پر ترکی کی فوج کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ترکی کا یہ اقدام ، شام کے قومی اقتدار اعلی کی خلاف ورزی ہے- درحقیقت شامی زمینوں پر ترک فوجیوں کی کارروائیاں غیر قانونی اور بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے خلاف ہے- دمشق حکومت کی مخالفت کے ساتھ ہی علاقے اور دنیا کی حکومتوں نے بھی ترکی کی جانب سے شام کی کچھ زمینوں پر قبضے پر ردعمل ظاہر کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔
ترکی کے اندر بھی معترض عوام نے انقرہ اور استنبول میں اردوغان حکومت کی غلط خارجہ پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے شام سے ترکی کی فوج کے نکلنے کا مطالبہ کیا ہے- احتجاج اور مخالفتوں کے باوجود اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ترکی کے اسلام پسند رہنما امریکہ پر دہشتگردی کی حمایت کا الزام لگانے کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں اس ملک کے مذموم اہداف کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکارہیں - مثال کے طور پر ترکی کی سعادت پارٹی کے سربراہ ملا اوغلو نے ابھی حال ہی میں کہا ہے کہ امریکہ ، مشرق وسطی میں عظیم مشرق وسطی کی تشکیل کی کوشش کررہا ہے- اس ترک سیاستداں کے انکشاف کے بعد عظیم مشرق وسطی کے نام سے موسوم منصوبے میں کردوں ، ترکوں اور کسی بھی دوسری قوم کی سرپرستی مدنظر نہیں ہے بلکہ صرف علاقے میں اسرائیل کا وجود اور اس کی سیکورٹی ملحوظ ہے-
ماہرین اور تجزیہ نگار، اردوغان حکومت کی عسکریت پسندانہ پالیسی کو انقرہ حکومت کی توسیع پسندی اور زیادہ خواہی سے تعبیر کرتے ہیں- اس سلسلے میں سیموئل رامانی نے نیشنل انٹرسٹ نامی ویب سائٹ پر ترکی کی اقتدار پسندی کس طرح مشرق وسطی کو تبدیل کرسکتی ہے ، کے زیرعنوان ایک مقالے میں لکھا ہے کہ قطراور شام میں ترکی کی فوجی موجودگی اس ملک کے رہنماؤں کی توسیع پسندی سے تعبیر کی گئی ہے۔ مجموعی طور کہا جا سکتا ہے کہ ترکی کے صدر کی کوشش ہے کہ علاقے میں امریکہ کے ساتھ رقابت کرے - جبکہ ترکی کے صدر کو پس پشت اور سامنے سے بھی کافی مخالفتوں کا سامنا ہے۔