Jan ۲۸, ۲۰۱۸ ۱۷:۲۷ Asia/Tehran
  • شام کے قومی مذاکرات ، تہران دمشق تبادلۂ خیال کا محور

شام کے قومی مذاکرات کے انعقاد کے موقع پر، جو روس کے شہر سوچی میں 29 اور 30 جنوری کو ہونا طے پائے ہیں، آستانہ کے سیاسی عمل میں ایران کے اعلی مذاکرات کار حسین جابری انصاری نے ہفتے کے روز دمشق میں شام کے صدر بشار اسد اور دیگر حکام سے بات چیت کی۔

اس ملاقات میں شام کے صدر بشار اسد اور آستانہ کے سیاسی عمل میں ایران کے اعلی مذاکرات کار حسین جابری انصاری نے دونوں ملکوں کے اسٹریٹیجک تعلقات اور مختلف شعبوں خاص طور سے دہشت گردی کے خلاف مہم میں دونوں ملکوں کے تعاون اور تعلقات کی تقویت سے متعلق تہران اور دمشق کی دلچسپی پر زور دیا اور سوچی میں شام کے قومی مذاکرات کی کامیابی کی کوششوں کے بارے میں گفتگو کی۔

سوچی مذاکرات دو پہلو سے اہمیت کے حامل ہیں: اول یہ کہ یہ مذاکرات شام کے بحران کے حل میں قابل مشاہدہ پیشرفت کی علامت ہیں اور دوسرے یہ کہ شام کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کے تحفظ کے دائرے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے عالمی سطح پر چند فریقی تعاون کے ساتھ انجام پا رہے ہیں۔ اس وقت آستانہ مذاکرات کا عمل، امریکہ کی خلاف ورزیوں اور روڑے اٹکائے جانے کے باوجود، پیشرفت کی سمت گامزن ہے اور سوچی کے اجلاسوں نے شام کے حکومت مخالفین کے ساتھ، شامی حکومت کے مذاکرات کے لئے حالات فراہم کئے ہیں۔

یہ مذاکرات علاقے اور حتی بین الاقوامی سطح پر بہت اہمیت کے حامل ہیں، اس لئے کہ داعش کے حامیوں نے، خطے میں داعش کو مستحکم کرنے کے ساتھ ہی خطے کی سیاسی و جغرافیائي صورتحال تبدیل کرنے کے لئے جو حساب کتاب کر رکھا تھا وہ ان رجحانات سے الگ تھا کیوں کہ امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل ، داعش کے وجود کے ذریعے علاقے کے مستقبل کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ روسی پارلیمنٹ ڈوما کے ڈپٹی اسپیکر اور بین الاقوامی مسائل کے ماہر سرگئی بابورین کہتے ہیں: "یہ جو آج دہشت گردوں کے ہاتھ سے شام کے بیشتر علاقے آزاد ہوگئے یہ ماسکو، تہران اور کسی حد تک انقرہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔"

مغربی ایشیاء کے ماہر محمد صادق کوشکی بھی قزاقستان کے شہر آستانہ اجلاس میں ہونے والے سمجھوتوں اور شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں شام مخالف گروہوں سے مذاکرات کے لئے حالات سازگار ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مختلف مراحل میں آستانہ اجلاس کا انعقاد اس بات کا باعث بنا کہ جنیوا سے مذاکرات کی اجارہ داری ختم کرکے علاقے کی سطح پر قومی مذاکرات انجام پائیں۔" مغربی ایشیاء کے اس ماہر کا خیال ہے کہ آستانہ کے چند فریقی اجلاس کی اہم ترین کامیابی یہ ہے کہ شام سے ان مغربی مداخلت پسندعناصر اور علاقے کی بعض رجعت پسند طاقتوں کو باہر نکال دیا گیا کہ جنہوں نے دمشق میں کشیدگی میں شدت پیدا کرنے کے حالات فراہم کئے تھے۔ 

شام کی قومی کانگریس ، ایران ، روس اور ترکی کی ہدایت پر بحران شام کے حل کے لئے جمہوری اصولوں اور سفارتی تناظر میں ایک منطقی روش ہے۔ چنانچہ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ شامی گروہوں کے درمیان قومی کانگریس کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ شام میں نئے آئین کی تدوین کی زمین فراہم کی جائے اور اس کے ذریعے اس ملک میں ایک آزاد اور منصفانہ الیکشن کرایا جائے جو پورے علاقے کے لئے امن و صلح کا پیغام ہوسکتا ہے- 

ایران، روس اور ترکی کے اسٹریٹیجک تعاون اور کردار سے ، سفارتکاری اور اس کے ساتھ ہی شامی عوام کے مطالبات کا احترام شام کے چھ سالہ بحران کی کلید ہے- اور یہ مہم سوچی میں شامی گروہوں کے درمیان قومی کانگریس میں پوری طرح واضح ہوگئی ہے۔ شام پر چھے سال سے مسلط کی گئی جنگ اور بدامنی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ ، اسرائیل اور بعض دیگر علاقائی حکومتوں کا اصل مقصد شام کو تقسیم کرنا، مزاحمتی گروہوں کو شکست سے دوچار کرنا اور مسئلہ فلسطین کو فراموشی کی نذر کرنا ہے۔ ایسے حالات میں ہر قسم کا اشتعال انگیز اقدام ممکن ہے اس بحران کے حل کے عمل کو اصل راستے سے ہٹا دے۔

ٹیگس